شوہر کی عزت کرنا بیوی کا فرض ہے۔شوہر اور سسرال والوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات اور صحت کا خیال رکھنا بیوی کی ذمہ داری ہے۔ لڑکی کو یہی باور کرایا جاتا ہے کہ ڈولی میکے سے اٹھے گی اور جنازہ سسرال سے۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں شادی کے بندھن میں بندھتے وقت لڑکیوں کی اکثریت نے سن رکھی ہوتی ہیں۔ لیکن ایسی تمام باتوں میں جو سوال نئی نویلی دلہن کے ذہن میں آتا تھا وہ یہ کہ شادی کے بعدجہاں بیوی کی بے شمار ذمہ داریا ں اور فرائض ہیں، وہیںایک بیوی کی عزت، اس کا خیال اور اس کے ساتھ تعاون کرناکس کی ذمہ داری ہے؟ کیا ایک عورت سے شادی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ شوہر، اس کے والدین، اہل وعیال، بچوں اور گھر کی ذمہ داریاں بخوبی نبھاسکے؟ ایک عورت ہونے کی حیثیت سے بیوی کو مرد کی برتری پر نہیں بلکہ اس کی بے جا حاکمیت پر اعتراض ہوتا تھا۔ تاہم اکیسویں صدی نے تمام تر اعتراضات اور حاکمیت سے متعلق گلے شکوے کافی حد تک ختم کردیے ہیں۔ آج کی عورت جہاں خود مختار ہے، وہیں ازدواجی زندگی میں پہلے کی نسبت زیادہ خوش بھی ہے۔ گھر کے امور ہوں یا اہم فیصلے، حتیٰ کہ گھریلو کام کاج میں بھی اکیسویں صدی کے باشعور شوہر بیوی کو ایک ملازمہ نہیں بلکہ ایک حقیقی جیون ساتھی کے طور پر تسلیم کرتے اور تمام امور میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
آج اگر ہم معاشرے کے مثبت پہلوؤں پر نظر دوڑائیں توایک تبدیلی یہ نظرآتی ہے کہ خواتین نہ صرف گھر میں بلکہ خاندان میں بھی اپنے آپ سے منسلک ہر رشتے کو بڑی خوبصورتی سے نبھا رہی ہیںتو دوسری طرف زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ سیاسی، ادبی، کاروباری ، صحت ، تعلیم یا کھیل جیسا کوئی بھی شعبہ ہو، ملک کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی حالات کی بہتری کے لیے بھی شوہر کے ہم قدم ہیں۔ اس پہلو سے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ تبدیلی نہ صرف خواتین بلکہ مردوںمیں بھی قابل تعریف ہے۔ آج کے باشعور شوہر جہاں معاشی حالات کی بہتری میں عورت کی شراکت قبول کرتے ہیں، وہیںگھریلو کام کاج میں بیویوں کا ہاتھ بٹانے کو عزت میں کمی کاسبب نہیں گردانتے۔ بچوں کی پرورش کا معاملہ ہو یا ویک اینڈ پرگھریلو کام کاج کی بہتات، کپڑوں کی استری ہو یا دھلائی کا مرحلہ، شوہر اور بیوی کئی کام مل بانٹ کر کرتے نظر آتے ہیں ۔
اس حوالے سے ایک سینئر کولیگ کی ویک اینڈ روٹین کا ذکر کرتے چلیں، جو انھوں نے ہم سے شیئر کی۔ ان کا کہنا تھا،’’چھٹی کے دن جب بیگم واشنگ مشین لگاتی ہیں تو ہم بیٹیوں کے ساتھ گھر کی صفائی کا ذمہ اٹھالیتے ہیں۔ اس کے بعد جب بیگم ہفتے بھر کی کوکنگ کا بندوبست کرتی ہیں تو ہم سبزی کی کٹنگ کا ذمہ اپنے سر لے لیتے ہیں کیونکہ بحیثیت بیوی اگر مالی معاملات کی بہتری میں وہ میرے ہم قدم ہیں تو گھریلو کام کاج میں کیا ہم ان کی مدد نہیں کرسکتے؟‘‘
ماضی کی بات کی جائے تو مشرقی معاشرے میں مرد کا کچن یا گھر یلو کام کاج میں مدد کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا (آج بھی ایسے گھرانے موجود ہیں، جوتبدیلی کی اس لہر سے کوسوں دور ہیں) کہ شوہر کی ذمےداری صرف گھرانے کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ اس ذمہ داری کے بوجھ تلے مرد ہی نہیں خواتین بھی ناخوش نظر آتی ہیں۔ ازدواجی تعلق میں میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں، جو ساتھ ساتھ خوش و خرم انداز میں سفر کرسکتے ہیں۔ ایک خوشگوار ازدواجی تعلق نہ صرف آپ کے سکون واطمینان کا باعث بنتا ہے بلکہ آپ کی لمبی عمر کا بھی۔ اس حوالے سے ایک تحقیق کا ذکر کرتے چلیں، جس میں امریکی تحقیق کار اس نتیجےپر پہنچے کہ خوشگوار ازدواجی تعلقات کے حامل جوڑے لمبی عمر پاتے ہیں۔ شادی شدہ اور خوش وخرم زندگی گزارنے والے افراد دل اور دماغ کے عوارض کا کم شکار ہوتے ہیں جبکہ ایسے افراد جو شادی نہیں کرتے ان کے ہاں اس طرح کی بیماریاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔
ازدواجی زندگی کا مطالعہ کرنے والے ممتاز امریکی ماہر جان گوٹمان کے مطابق جس حد تک ممکن ہو اپنی شریکِ حیات کے ساتھ بہتر سلوک اور تعاون کا رویہ اپنائیں کیونکہ خوش رہنے والے جوڑے میں منفی انداز کے مقابلے میں مثبت انداز زیادہ غالب ہوتا ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ جتن کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف مسکرانا، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور سنتے وقت توجہ دینے کے معمولی انداز بھی باہمی تعلق کو بہت حد تک خوشگوار بناسکتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آج کے پڑھے لکھے مرد یہ بات سمجھنے کوتیار ہیں کہ بیوی صرف کچن کے کاموں کے لیے ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ زندگی کے ہر مرحلے پر آپ کے شانہ بشانہ چلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہ آپ کی ذات کا ایک ایسا حصہ ہے جس کی ذمہ داری آپ پر بوجھ نہیں بلکہ آپ کی مسرت واطمینان کا ذریعہ ہے۔