رحمت و مغفرت کے اس ماہِ مبارک میں جس قدر نیک اعمال کیے جائیں گے،اسی قدر روح میں لطافت اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی،خصوصاً قرآنِ کریم کی تلاوت کا اہتمام،کیوں کہ اس ماہ کو اس سے خاص نسبت ہے
وہ ماہِ مبارک جس کا انتظار تھا،عن قریب جلوہ گر ہونے والاہے۔ حضور اکرم ﷺرجب سے نہ صرف رمضان المبارک کا انتظار فرماتے تھے، بلکہ بارگاہِ خداوندی میں دست دعا ہوتے تھے کہ اے اللہ، ہمیں رمضان المبارک تک پہنچا دیجیے، یعنی ہمیں صحت و عافیت کے ساتھ اتنی زندگی عطا فرمائیے کہ ہم رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔ اسی لیے اللہ کے نیک بندوں کو رمضان المبارک کا سال بھر انتظار رہتا ہے اور رجب کا چاند نظر آتے ہی اس انتظار میں شدت آجاتی ہے کہ کسی طرح ماہِ مبارک ہمیں میسر آجائے۔اب رمضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ ہم پر سایۂ فگن ہونے والا ہے۔ انوار وتجلیات،رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہوتی ہے، گناہ گاروں کے لیے اس ماہ مبارک میں سامان مغفرت ہے،اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے’’نارِ جہنم‘‘ کے مستحق ہونے والوں کے لیے آزادی کا پروانہ ہے۔اس ماہ میں ایمان وعمل کی بہار آتی ہے، گناہوں کی سیاہی سے زنگ آلودہ دلوں کی صفائی اور صیقل کا سامان کیا جاتا ہے،جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں،جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،اے خیر کے طلب گار، آگے بڑھ اور اے شر کے چاہنے والے پیچھے ہٹ جا، کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں،اس ماہ مبارک میں دن کو روزہ فرض کیا گیا، تاکہ نفسِ امارہ کو اس کی خواہشات اور مرغوبات سے دور رکھ کر زیور تقویٰ سے آراستہ کیا جائے اور رات کو قرآن سن کر دلوں کو جلابخشی جائے۔
اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے،اس لیے وہ رہبانیت کے بھی خلاف ہے اور نری مادہ پرستی کے بھی۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس دنیا کے خزانوں اوردفینوں سے فائدہ اٹھائو،اپنی خواہشات کو پورا کرو، مگر ایک دائرے میں رہ کر اور ایک حد میں رہ کر۔ اپنے اخلاق وروحانیت کے جذبے کو کبھی افسردہ اور مُردہ نہ ہونے دو ،تمام انبیاءؑ نے ہر دور میں اسی کے لیے کوشش کی۔جب بھی انسانیت انتہا پسندانہ مادیت اور حیوانیت کی زد میں آکر ہلاک ہونے کے قریب ہوئی انہوں نے اخلاق وروحانیت پیدا کرنے کے اسباب مہیا کیے۔روزہ بھی سال میںایک مرتبہ اسی لیے فرض کیا گیا کہ معدے اور مادے کی شقاوت اور سختی دور ہو، کچھ دن مادیت پرستی میں تخفیف ہو،تاکہ اس میں روحانیت اور ایمان کی اتنی مقدار داخل ہوجائے جس سے اس کی زندگی اعتدال پر آجائے، کچھ دیر کے لیے اخلاق الٰہی کا کسی قدر عکس اس میں اُتر سکے۔اس میں فرشتوں کی نسبت حاصل ہوجائے۔ نفس کا مقابلہ کرسکے اور روح کی پُرفضا وسعتوں میں وہ جولانیاں کرسکے۔رزق کی فراوانی کے باوجود بھوکا پیاسا رہ کر وہ لذت ونشاط حاصل کرسکے جو انواع واقسام کے لذیذ کھانوں سے حاصل نہیں ہوتی، اسی کو قرآن کریم ’’تقویٰ ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے:اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے،تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جائو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)اس آیت میں روزے کا مقصد بتایا گیا کہ اس سے بھوکا پیاسا رکھنا مراد نہیں، بلکہ حیوانی اور نفسانی تقاضوں کو دباکر ملکوتی صفات پیدا کرنا ہے،تاکہ دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو اور وہ تقویٰ کی صفت سے متصف ہو۔
اس مبارک مہینے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ فرمایا ہے، گویا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جو دنیا کے بکھیڑوں میں گھر کر اللہ تعالیٰ سے دور ہوچکا ہے،اللہ تعالیٰ اسے اپنے قریب کرنے اور اسے اپنا بنانا چاہتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو پیدا تو کیا تھا، اپنی عبادت کے لیے۔ ارشادِ خداوندی ہے:’’ میں نے انسان اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘لیکن یہ انسان اپنی ضروریات اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دنیا اور اس کے کاموں میں اتنا منہمک ہوگیا کہ اپنے مقصد تخلیق کو بھلا بیٹھا اور اپنے خالق ومالک کی طرف سے غافل ہوگیا،اس لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تم گیارہ مہینے دنیاکے جھمیلوں میں،اس کی تجارت وزراعت میں، مزدوری ودیگر کاروبار میں مشغول رہتے ہو، کیوں کہ تمہاری اپنی ضروریات بھی ہیں، بیوی بچے بھی ہیں اور دوسرے بہت سے افراد کے حقوق وابستہ ہیں،ان سب کے لیے کمانا بھی ہے، دنیوی اُمور میںمصروف ہونا بھی ہے تو گیارہ مہینے تم دنیا کے کاموں میں جو مصروف رہتے ہو اور اس کی وجہ سے دل پر جو غفلت کے پردے پڑجاتے ہیں اورخالق سے تمہارا رشتہ کمزو رپڑ جاتا ہے،تو اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس ایک ماہ کے لیے تم اپنے آپ کو اس دنیا کے جھنجھٹ سے نکالو اور اپنے مقصد تخلیق کی طرف لوٹ آئو، اور عبادت الٰہی سے اپنے دل پر پڑے غفلت کے پردے کو اتار ڈالو اور گناہوں کی وجہ سے زنگ آلودہ دلوں کو اللہ کے ذکر سے جلا بخشو اور اس کے زنگ کودور کرو، اپنے خالق ومالک کے صحیح بندے بن کر اس سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑلو، کیوںکہ یہ مہینہ خالص اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، یہ اللہ کو راضی کرنے کا مہینہ ہے، یہ رحمتوں اور مغفرتوںکو حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔
اس ماہ کی خاص عبادت روزہ ہے اور اس روزے سے مقصد تقویٰ ہے۔ حضور اکرم ﷺایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں:’’ہر نیکی کا بدلہ دس گناسے لے کر سات سو گنا تک دیا جاتا ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ (بخاری ، مسلم)تمام عبادتیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ان کا بدلہ عطا فرمائیں گے تو روزہ میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کے لیے کہا جارہا ہے کہ ’’ روزہ میرے لیے ہے اور میںہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ مرتضی زبیدی نے چند اقوال نقل کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:٭…کھانے پینے سے بے نیازی حق تعالیٰ کی شان ہے بندہ جب روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے کچھ مشابہت حاصل کرتا ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔٭…نماز ، سجدہ، رکوع، ذکر، صدقہ سے غیر اللہ کی بندگی،بت پرستوں یا گمراہ فرقوں نے بھی کی لیکن روزہ سے غیر اللہ کی بندگی نہیں کی گئی۔ کبھی نہ سنا گیا یا دیکھا گیا کہ کسی بت پرست یا گمراہ نے اپنے بت یا بزرگ کے نام پر روزہ رکھا ہو،اس لیے فرمایا گیا کہ روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔٭…اگر کوئی کسی کا حق غصب کرے یا تکلیف وایذا دے اور دنیا میں اس کا حق ادا کرے یا معاف کرائے بغیر مر جائے تو اللہ تعالیٰ ظالم سے اس کی نماز، عبادات اس کے ظلم کے بدلے میں دلوائیں گے، البتہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو کسی کے حق کے بدلے میں نہیں دیا جائے گا اس لیے اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔٭…عام عبادات اور طاعات کا قانون یہ ہے کہ ہر نیکی کاثواب دس گنا سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے، لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ اس میں یہ قانون نہیں ہے،اللہ تعالیٰ اپنی جُودو سخا کا اظہار فرماتا ہے اور روزے دار کو بے حد وحساب اجر دیتا ہے وجہ ظاہر ہے کہ روزہ صبر ہے اور صبر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’صبر کرنے والوں کو بے حد وحساب اجر دیا جائے گا۔‘‘٭…نماز ، روزہ، حج وغیرہ ظاہری اشکال رکھتے ہیں، مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی ظاہری شکل نہیں ہے، اس لیے اس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی،چنانچہ بیہقی اور ابو نعیم کی روایت میں اس کی تصریح بھی ہے،روزے میں دکھاوا نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ میرا ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ میری وجہ سے ہی اپنے کھانے پینے کو چھوڑتا ہے۔(شرح احیاء العلوم)
حضور اکرم ﷺنے فرمایا: ’’ جس نے ایمان کے جذبے اور طلب ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا روزہ رکھا، اس کے گزشتہ گناہوں کی بخشش ہوگئی۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
روزہ ہر مسلمان عاقل، بالغ مردوعورت پر فرض ہے،بلاعذر اس کا چھوڑنا گناہ ہے حضور اکرم ﷺنے فرمایا جس شخص نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان المبارک کا ایک روزہ بھی چھوڑدیا تو خواہ ساری عمر روزے رکھتا رہے، اس کی تلافی نہیں کرسکتا (یعنی دوسرے وقت میں روزہ رکھنے سے اگر چہ فرض ادا ہوجائے گا مگر رمضان المبارک کی برکت وفضیلت کا حاصل کرنا ممکن نہیں) (احمد، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ)
بہت سے حضرات معمولی، معمولی باتوں پر روزہ چھوڑدیتے ہیں، شریعت میں عذر یا تو سفر ہے کہ سفر کی مشقت کی وجہ سے اجازت ہے چاہے تو روزہ رکھے یا چھوڑ دے، لیکن جتنے روزے چھوڑے گئے ان روزوں کی قضا بعد میں لازمی ہے، اسی طرح وہ بیماری جس میں روزے کی وجہ سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑا جاسکتا ہے، اگر ایک شخص اتنا بوڑھا ہو کہ وہ روزہ رکھ کر اسے پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو، اسے بھی روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، لیکن وہ اپنے روزوں کا فدیہ دے گا۔ ہر روزے کا فدیہ صدقۃ الفطر کے برابر ہے۔ اسی طرح اگر عورت حالت حمل میںہو یا وہ بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے کی وجہ سے اتنا ضعف ہوجائے کہ اس کی یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو تو اس عورت کو بھی روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے، لیکن بعد میں اس کے ذمے بھی قضا لازم ہے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہے کہ عورت کے لیے عذر کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں جس طرح کہ ان دنوں میں نماز پڑھنا جائز نہیں، لیکن یہ یاد رہے کہ ان دنوں کی نمازوں کی قضا نہیں لیکن روزوں کی قضا ضروری ہے بہت سی عورتوں کے ذہن میں یہ ہے کہ نماز کی طرح روزوں کی قضا بھی نہیں یہ غلط ہے۔ اہتمام سے بعد میں ان روزوں کو قضا کی نیت سے رکھنا چاہیے۔
رمضان المبارک کے خصوصی اعمال( روزہ، تراویح ، تلاوت قرآن کریم، ذکرِ الٰہی، دعا واستغفار) کا خصوصی اہتمام کیا جائے، اس سراپا نور مہینے میں جس قدر نورانی اعمال کیے جائیں گے، اسی قدر روح میںلطافت، بالیدگی اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی۔ خصوصاً قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کیونکہ اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے، اسی ماہ میں قرآن کریم نازل ہوا۔اس مہینے میںجھوٹ ،بہتان،غیبت ،حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کا پورا اہتمام کیا جائے، حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے پرہیز نہ کرے،اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں،جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نعوذ باللہ۔ روزے کی حالت میںکان کی،آنکھوں کی ، پیٹ کی،شرم گاہ کی اور دیگر اعضاء کی حفاظت لازم ہے۔ غرض اس مہینے میں گناہوں کا ترک کرنا لازم ہے اور اگر ذرا سی ہمت سے کام لیا جائے تو ان چند دنوں میں گناہوں کا چھوڑنا بہت آسان ہے۔ جہاں گناہوں سے پرہیز لازم ہے ، وہاں بے فائدہ اور لا یعنی مشاغل سے بھی احتراز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ بے مقصد کے مشغلے انسان کو مقصد سے ہٹا دیتے ہیں۔
اس ماہِ مبارک میں قلوب کا تصفیہ بھی بہت ضروری ہے، جس دل میں کینہ ، حسد ، بغض ، عداوت کا کھوٹ او ر میل جمع ہو،اس پر اس ماہ مبارک کے انوار کی تجلی کماحقہ نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث کے مطابق رمضان المبارک کی راتوں میں سب لوگوں کی بخشش ہو جاتی ہے، مگر ایسے دو شخص جو ایک دوسرے سے کینہ وعداوت رکھتے ہوں، ان کی بخشش نہیں ہوتی۔اس لیے تقاضائے بشریت کی بناء پر جو آپس میں رنجش ہو جاتی ہے ،ان سے دِل صاف کر لینا چاہیے اور اس ماہِ مبارک میں کسی دوسرے مسلمان سے کینہ وعداوت نہیں رہنی چاہیے۔ماہِ مبارک کا دِل وزبان اور عمل سے احترام کرنا بھی لازم ہے،اپنی معصیت اور نافرمانی کے مظاہرے سے اس کو ملوث ( آلودہ ) نہ کریں۔
آنحضرت ﷺنے ماہِ رمضان کو ہمدردی وغم خواری کا مہینہ فرمایا ہے،اس لیے اس مہینے میں جو دوسخا اور عطاء وبخشش عام ہونی چاہیے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت عطا فرمائی ہے، وہ اس مہینے میں تنگ دستوں اور محتاجوں کی بطور خاص نگہداشت کریں۔اس ماہِ مبارک کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے،رمضان مبارک کو گزرنے نہ دیجیے جب تک ملأاعلیٰ میں ہماری بخشش ومغفرت کا اعلان نہ ہو جائے ، توبہ واستغفار، بارگاہ خداوندی میں عجز ونیاز اور آہ وزاری میںکسرنہ چھوڑیے، بلکہ ساری عمر کی حسرتیں نکال لیجیے، ذکر وتسبیح ، صلوٰۃ وسلام، تکبیر وتہلیل خصوصاً تلاوت قرآن پاک سے اپنے اوقات کو معمور رکھیے۔
تہجد کے وقت اُٹھنا اور سحری کھانا تو معمولات میں داخل ہی ہے کوشش کیجئے کہ اس ماہِ مبارک میں آپ کی نماز ِتہجد فوت نہ ہو،خواہ دو ہی رکعتیںپڑھنے کا موقع ملے مگر’’ آہ سحر گاہی‘‘ کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام ضرور درج کرا لیجیے۔تراویح تو رمضان المبارک کی خاص نماز ہے،لیکن آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کم ازکم رمضان مبارک میں آپ کی کسی نماز کی تکبیر تحریمہ فوت نہ ہو۔ تمام لغوتفریحات کو خیر باد کہہ دیجیے اور عزم کر لیجیے کہ اس ماہِ مقدس کو اپنے گناہوں کی نجاست اور گندگی سے آلودہ نہیں کریں گے۔
ماہِ مبارک قبولیت دعا کا خاص موسم ہے،مانگنے والوں کو ملتا ہے اور خوب ملتا ہے۔مانگنے والوں کی حیثیت کے مطابق نہیں بلکہ دینے والا اپنی شان کے مطابق دیتا ہے، مگر کوئی چاہیے مانگنے والا۔ اس ماہِ مبارک میں ’’ کائنات کے داتا‘‘ کے دروازے پر جتنا مانگا جا سکے مانگیے، خوب رو رو کر مانگیے ، مچل مچل کر مانگیے، اپنے لیے بھی اپنے اہل وعیال اور دوست واحباب کے لیے بھی، اُمت مرحومہ کے بلند پایہ اکابر کے لیے بھی اور اُ مت کے گناہ گاروں کے لیے بھی۔
آج کل ملک بلکہ پوری دنیا کے خصوصاً عالم اسلام کے جو حالات چل رہے ہیں، ان حالات میں اور زیادہ ضروری ہے کہ ہم اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کریں۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ پوری اُمت مسلمہ کے مردوں اور عورتوں،جوانوں اور بوڑھوں سب کے لیے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے حضور رو رو کر معافی مانگیں،بس اس رمضان کو تو امُت کے لیے استغفار کرنے کے لیے خاص کر لیں۔ تلاوت قرآن کریم، نماز، صدقہ وخیرات اور ہر نیکی کے بعد اللہ رب العزت کے حضور آنسو بہا بہا کر مغفرت طلب کریں۔اپنے گناہوں پر معافی مانگنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔