• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ بھی بچوں والے ہیں۔ پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں والے۔ آپ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے میرے ہم سفر ہیں۔ ہر اتوار اپنی اولادوں کے ساتھ بیٹھ کر نئے پرانے زمانوں کی باتیں کرکے آپ خوش ہوتے ہیں۔ بچے ہم سب کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ہمیں اپنا۔ پاکستان کا دنیا کا مستقبل چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ نہ جانے اپنے کتنے خواب ہم ان کی دمکتی پیشانیوں پر تعبیر پاتے دیکھتے ہیں۔ میں اس وقت بہت دل گرفتہ ہوں ۔ ’دی نیوز‘ میں ایک خبر نے مجھے دہلاکر رکھ دیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ ۔ غیر فعال انداز زندگی نے بچوں کے سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھادئیے ہیں اور ہمارے مستقبل کے معمار۔ عین ان دنوں میں اگلے جہان سدھار رہے ہیں۔ جب ان کے کھیلنے کودنے اور اپنے والدین کو خوش کرنے کی عمر ہوتی ہے ۔ زندگی گزارنے کے یہ ڈھنگ چاہے زیادہ دولت مند ہونے کے باعث ہیں یا سوشل میڈیا کی وجہ سے یا ہر وقت ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھنے سے یا ہر لمحہ موبائل فون پر نظریں جمائے رکھنے سے۔ انگریزی میں اسے Sedentry Life Styleکہا جارہا ہے۔ لغوی معنی تو ہیں۔ ہر وقت بیٹھے رہنا۔ شان الحق حقی صاحب نے لغت میں اسے عافیت گزینی بھی کہا ہے۔ اور دوسرا لفظ ’ٹھس پن’ استعمال کیا ہے۔ بزرگ شہری۔ بڑے بوڑھے۔ مجھ اور آپ جیسے تو بیٹھے رہیں تو کچھ جواز بنتا ہے۔ عمر کے حوالے سے ۔لیکن اگر آٹھ نو سال سے سترہ سال تک کے انسان بھی زیادہ وقت بیٹھے بیٹھے گزاریں تو دنیا تو جامد ہوجائے گی۔ پھر قبریں جلد انتظار کرنے لگتی ہیں۔ جوان جنازے زیادہ اٹھنے لگتے ہیں۔

میں تو لرز کر رہ گیا ہوں۔ پاکستان کارڈیک سوسائٹی کے صدر پروفیسر فیروز میمن کی پریس کانفرنس نے میری سانسیں روک دی ہیں۔ ہم جو اس وقت اپنے بچوں کی صحت کی فکر کی بجائے عمران خان کی ناکامی کے نعرے لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ صدارتی اور پارلیمانی نظام کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی میراتھن پریس کانفرنس کا آئینی جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام کو کھنگال رہے ہیں۔ مولانا مسعود اظہر کو بالآخر عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کو بھارت کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اور پریشان ہیں کہ چین نے مسعود اظہر صاحب کے معاملے سے ہاتھ کیوں اٹھالیا۔ وہ ادھر غور نہیں کررہے ہیں کہ ہماری آئندہ نسل کے معدوم ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ نہیں سوچتے کہ یہ خبریں کیوں آتی ہیں۔ آٹھ سالہ بچے کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ دس سالہ بچی کا فشار خون( بلڈ پریشر) خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اتنا ضرور ہوتا ہے کہ ہم ڈاکٹر کی طرف بھاگتے ہیں۔ اسپتال لے جاتے ہیں۔ بہت سے محلّوں میں اتائی ڈاکٹر اسپتال کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ موت کے ہرکارے بنے ہوئے ہیں۔

میڈیکل یونیورسٹیاں اس پر تحقیق نہیں کرتی ہیں۔ ایسی آب و ہوا ہے ۔ شہری انتظامیہ کی لا پروائی ، گندگی، پینے کا صاف پانی میسر نہیںہے۔ ہوا میں آلودگی ہے۔ تھر سے ہر روز ایک دو بچوں کی دنیا سے اٹھ جانے کی خبر ہمارے دل نہیں دہلاتی۔ سندھ میں تبدیلیوں اور نیا سندھ دکھانے کے دعویدار جواں سال بلاول بھٹو زرداری اپنی اعلیٰ تعلیم کے باوجود تھر کے بچوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو اپنے لیے چیلنج نہیں سمجھتے۔

تھر میں بچے پوری غذا نہ ملنے سے دنیا چھوڑ رہے ہیں۔ بڑے شہروں میں بچے ضرورت سے زیادہ غذا بیٹھے بٹھائے ملنے سے بیمار ہورہے ہیں۔ ہماری نسل آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ یہ صرف ان بچوں کے اپنے انداز زندگی سے نہیں۔ یہ موروثی مسئلہ بھی ہے۔ ماں باپ نے بھی اسی عافیت گزینی میں زندگی بسر کی تو یہ غیر حرکتی انداز بچوں کے خون میں منتقل ہورہا ہے۔ کہیں تو امیر گھرانوں میں کھیلنے کودنے کے مواقع ہونے کے باوجود ان سے استفادہ نہیں کیا جارہا ہے۔ غریب بستیوں میں پارک نہیں ہیں۔ کھیلنے کے میدان نہیں ہیں۔ گندگی ہے۔ پینے کے پانی میں گندا پانی مل رہا ہے۔ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی ، بلدیاتی نظام بے اختیار ہے تو رعایا کی زندگی اجیرن رہے گی۔

ہ ہمارے ماہرینِ امراض قلب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو فشار خون ، ذیابطیس، بیماریٔ دل وراثت میں مل رہی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ اپنی اولادوں کو ورثے میں کیا دے رہے ہیں۔ ذہنی کشیدگی۔ الجھنیں۔ نفسیاتی عوارض۔ اس میں شدت موبائل فون کا بیٹھے بیٹھے استعمال پیدا کردیتا ہے۔ ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بچوں نوجوانوں کو ٹی وی ٹاک شوز دیکھنے سے بھی منع کریں۔ ڈاکٹر بر وقت خبردار کررہے ہیں کہ اس غیر صحت مند طرز زندگی سے 12سے 18سال تک کے پاکستانی بلند فشار خون اور پھر شوگر سے دو چار ہورہے ہیں۔ اور ابتر صورتِ حال یہ ہورہی ہے کہ 20سے 30سالہ نوجوان بیٹے بیٹیاں دل کا دورہ پڑنے سے داغ مفارقت دے رہے ہیں۔

ماہرین کا عزم ہے کہ وہ ان خطرناک رجحانات پر تحقیق کریں گے اور پاکستانیوں کو باقاعدہ آگاہ اور خبردار کریں گے کہ وہ اس طرز زندگی کو ترک کریں۔ حرکت میں برکت ہے۔ محلّے میں گھومیں پھریں۔ باغات میں جائیں۔ درختوں سے ہم کلام ہوں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارا تیز رفتار میڈیا بھی یہ آگاہی اور بیداری پھیلائے۔ لیکن وہ تو چاہتا ہے کہ سب گھر والے ان کے سامنے بیٹھے رہیں۔ حتیٰ کہ وقفے میں بھی اینکر پرسن کہتے ہیں ۔ بیٹھے رہئے۔ کہیں جائیے گا مت۔ ہم ابھی حاضر ہوتے ہیں۔

میں تو یہ رپورٹ پڑھ کر کانپ گیا تھا۔ اس لیے یہ باتیں کرنے لگا۔

ویسے مجھے آپ کو رمضان المبارک کی مبارکباد دینا ہے۔ رحمتوں برکتوں مغفرتوں اور جہنم سے نجات کے عشرے آنے والے ہیں۔ اب مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی۔ مسجد تاریخ اسلام میں ہمیشہ سے مسلمانوں کا مرکز رہی ہے۔ خلفائے وقت اپنے فرامین مسجد کے منبر سے ہی جاری کیا کرتے تھے۔ اب مسجدیں صرف نمازوں کی ادائیگی تک محدود کردی گئی ہیں۔ یا فرقہ واریت کے پرچار کے لیے۔ اس پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔ غیر مسلم ممالک میں مسجدیں اب بھی اسلامی مراکز کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ آج کل جس گلوبلائزیشن کے فلسفے کی بات ہورہی ہے۔ دنیا سمٹ رہی ہے ۔ عالمگیریت پر زور دیا جارہا ہے ۔ دنیا کو ایک عالمگیر گائوں کہا جارہا ہے۔اسلام سے زیادہ اجتماعیت کس مذہب میں ہوگی۔ روزانہ پانچ وقت۔ محلّے کی سطح پر اجتماع۔ ہفتے میں ایک بار نماز جمعہ کے لیے زیادہ بڑے پیمانے پر اکٹھا ہونا۔ عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے لیے شہر کی سطح پر جمع ہونا۔ اور پھر حج بیت اللہ کے لیے بین الاقوامی حیثیت میں اجتماع۔ منیٰ میں جو خیموں کا شہر بستا ہے اصل میں تو عالمگیر گائوں Global Villegeیہ ہوتا ہے۔ اس پر بات رمضان کے بابرکت ایام میں ہی ہوگی۔ آئیے رمضان کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹیں۔

تازہ ترین