• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان بازاروں کا قیام، خوش آیند و قابلِ تحسین رحجان

عبدالمجید ساجد، لاہور

حکومتِ پنجاب کی جانب سے سَستا بازار، اتوار بازار، ماڈل بازار اور رمضان بازار جیسے مختلف بازاروں کے قیام کا حقیقی مقصد شہریوں کو پھلوں اور سبزیوں سمیت روزمرّہ استعمال کی دیگر اشیاء کی سرکاری نرخ پر فراہمی یقینی بنانا ہے۔ تاہم، غور طلب بات یہ ہے کہ حکومت اپنے اس مقصد میں کس حد تک کام یاب رہی اور سرکار کی جانب سے ان بازاروں میں کیا کیا سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ اس وقت لاہور میں 10ماڈل اور 4اتوار بازارقائم ہیں۔ ٹائون شپ، جوہر ٹاون، وحدت کالونی، سبزہ زار، ہربنس پورہ، چائنا اسکیم، ٹھوکر نیاز بیگ، چوہنگ اور شیر شاہ کالونی میں ماڈل بازار، جب کہ شادمان کالونی، تاج پورہ، گلشنِ راوی اور بیگم کوٹ میں اتوار بازار لگائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب حکومتِ پنجاب نے رمضان المبارک میں صوبے بَھر میں 309خصوصی بازار لگانے کا فیصلہ کیا، جن میں سے 31لاہور میں لگائے گئے ہیں۔ اگر لاہور میں قائم اتوار بازاروں کی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تومیونسپل کارپوریشن کی جانب سے تقریباً 200فٹ چوڑی سڑک بند کر کے نالے پر قائم کیا گیا شادمان اتوار بازار حفظانِ صحت کے اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے، لیکن اس پر فوڈ اتھارٹی اور ٹریفک پولیس سے لے کر کم و بیش ہر ادارہ ہی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اسی طرح گلشنِ راوی اتوار بازار بھی سڑک پر قائم ہے۔ ان بازاروں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں اور میونسپل کارپوریشن بھی اس کا برملا اعتراف کرتی ہے، لیکن پرائس کنٹرول کمیٹی سمیت دیگر متعلقہ ادارے تاجروں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ان اتوار بازاروں میں گراں فروشی اور بد نظمی کا یہ عالم ہے کہ اوّل تو سرکاری نرخ نامہ صبح 10بجے کے بعد فراہم کیا جاتا ہے، تاکہ تاجر زیادہ سے زیادہ منافع خوری کر سکیں اور جب ضلعی حُکّام کے نام نہاد دورے کا وقت ختم ہو جاتا ہے، تو اس ریٹ لسٹ کو چُھپادیا جاتا ہے۔ نیز، ان بازاروں میں انتظامیہ کی ملی بھگت سے درجۂ اوّل اور درجۂ دوم کا ڈراما رچا کر اشیاء کے نرخ مقرّر کیے جاتے ہیں اور ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ اتوار بازاروں کے گرد و پیش بے تحاشا تجاوزات قائم ہوچُکی ہیں، جہاں تاجر صارفین سے مَن مانے دام وصول کرتے ہیں، لیکن ضلعی انتظامیہ ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے، جب کہ ماڈل بازار، ٹھوکر نیاز بیگ کی حدود کے باہر بھی یہی حالت ہے۔

مذکورہ بالا صورتِ حال کے پیشِ نظر ہی2016ء میں ضلعی انتظامیہ کے زیرِ انتظام چلنے والے اتوار بازاروں کو ماڈل بازار مینجمنٹ کمپنی نامی ایک خود مختار ادارےکے سُپرد کیا گیا تھا، تاکہ ان کا نظم و نسق خوش اسلوبی سے چلایا جا سکے۔اطلاعات کے مطابق، ابتدائی طور پرکُل 20بازار ضلعی انتظامیہ سے لے کر مذکورہ کمپنی کے کنٹرول میں دیے گئے اور اس وقت ان کی تعداد 32تک پہنچ چُکی ہے، جو پنجاب کے مختلف شہروں میں قائم ہیں۔ مذکورہ کمپنی کی آڈٹ شُدہ اطلاعات کے مطابق، کمپنی کے قیام سے قبل اسٹال ہولڈرز اور اڈا ہولڈرز کی تعداد 5سے6ہزار کے درمیان تھی، جو اب 15ہزار تک جا پہنچی ہے۔ ماڈل بازار مینجمنٹ کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ معلومات سے پتا چلتا ہے کہ حکومت صرف نئے ماڈل بازار کے قیام کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہے، جب کہ بازاروں کے انتظامی اخراجات اسٹالز اور دیگر ذرایع سے(اسپیشل ڈے بازار، جوائے لینڈ زاور فوڈ کورٹس وغیرہ) ہونے والی آمدن سے پورے کیے جاتے ہیں، جن میں یوٹیلیٹی بِلز، ملازمین کی تن خواہیں، سیکوریٹی انتظامات اور سالانہ ری پیئرنگ اینڈ مینٹی نینس چارجز شامل ہیں۔ کمپنی کی آڈٹ کردہ رپورٹ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ملازمین کو تن خواہوں کی ادائیگی کے لیے حکومت سے کسی قسم کا فنڈ نہیں لیا جاتا۔ حکومتِ پنجاب کی جانب سے ماڈل بازاروں کے قیام کا مقصد ایک چھت تلے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ ان بازاروں میں بچّوں کی تفریح کے لیے بنائے گئے جوائے لینڈز کی تعداد 4سے بڑھا کر 10سے زاید کر دی گئی ہے۔ کمپنی کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ کے مطابق، ماڈل بازاروں سے 10ہزار سے زاید افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی ماڈل بازار قائم ہیں، جن میں ماڈل بازار جھنگ روڈ، فیصل آباد، جھنگ روڈ، ماڈل بازار، سرگودھا، ماڈل بازار، جھنگ اور ماڈل بازار، جام پور وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، محکمۂ خزانہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مزید شہروں میں ماڈل بازاروں کے قیام کے حوالے سے ابھی تک کسی قسم کی گرانٹ کی درخواست نہیں بھجوائی گئی، جو حکومت کی عدم دِل چسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مجموعی طور پر ماڈل بازاروں کی صورتِ حال دیگر بازاروں سے کافی حد تک بہتر ہے۔ یہاں اشیائےخورونوش سرکاری نرخ پر دست یاب ہیں۔ نیز، ان کے گرد چار دیواری قائم ہے اور سیکوریٹی، پارکنگ اور صفائی سُتھرائی کا نظام بھی نسبتاً بہتر ہے۔ تاہم، اب بھی بہتری کی خاصی گنجایش موجود ہے۔ہرچند کہ ماڈل بازاروں میں آنے والے شہریوں کو خریداری کے لیے شاپنگ ٹرالیز فراہم کی جاتی ہیں، مگر ان کی تعداد اور معیار میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ اتوار بازاروں کے برعکس ماڈل بازار کے ہر اسٹال ہولڈرز کے لیے اپنے اسٹال پر سرکاری نرخ نامہ آویزاں کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے اور ہر بازار میں نگرانی پر مامور کمپنی کے ملازمین اشیائے خور و نوش کی سرکاری ریٹ پر فروخت کو یقینی بناتے ہیں۔ ماڈل بازاروں میں سبزیوں، پھلوں اور چکن وغیرہ کے اسٹالز پر تو سرکاری نرخ نامہ آویزاں کیا جاتا ہے، مگر دیگر اشیاء کے اسٹالز پر صورتِ حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔گرچہ ماڈل بازاروں میں صارفین کی شنوائی کے لیے شکایاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں، لیکن جب بے شمار اشیاء کے نرخ ہی مقرّر نہیں، تو خریدار شکایت کس بات کی کریں گے۔ ان ماڈل بازاروں میں صارفین کو اعلانات کے ذریعے مسلسل آگہی فراہم کی جاتی ہے۔ قواعد کی خلاف ورزی پر اسٹال ہولڈرز کو پہلے تنبیہ کی جاتی ہے، اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں، تو اُن پر جُرمانہ عاید کردیا جاتا ہے، جب کہ مسلسل خلاف ورزی کی صورت میں اُن اسٹال ہولڈرز کی رُکنیت بھی ختم کی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس اتوار بازاروں میں گراں فروشی کنٹرول کرنے کے ایسے اقدامات نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے صارفین کو قیمتوں کے ساتھ معیار پر بھی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔

رمضان بازاروں کا قیام، خوش آیند و قابلِ تحسین رحجان
اکرم چوہدری، مشیر وزیرِ
 اعلیٰ پنجاب

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت بازاروں کا نظم و نسق سنبھالنے میں ناکام ہو گئی اور اُسے ایک خود مختار کمپنی بنا کر انہیں اس کے سُپرد کرنا پڑا؟ نیز، اگر ایسا ہی ہے، تو پھر حکومت ان ماڈل بازاروں کا دائرہ پنجاب کے تمام اضلاع اور تحصیلوں تک پھیلانے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ اگر ماڈل بازاروں کی انتظامیہ اشیاء کی فروخت سرکاری نرخ پر ممکن بنا سکتی ہے، تو اتوار بازاروں میں ڈی سی ریٹ پر عمل درآمد کیوں نہیں کروایا جا سکتا یا اتوار بازاروں میں ماڈل بازاروں جیسے انتظامات کیوں نہیں کیے جا رہے؟ اگر ایسا ممکن نہیں ہے، تو پھر اتوار بازاروں کو بھی مذکورہ کمپنی کے حوالے کردیا جائے، تاکہ عوام کو بہتر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ دُنیا بَھر میں انتظامی مشینری مختلف منصوبوں کے لیے صرف سہولتیں فراہم کرنے اور انہیں عوام تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کی جانب سے پنجاب کے تمام اعلیٰ افسران کو صوبے بَھر میں آٹے، چینی اور ٹماٹر سمیت دیگر اشیائے خور و نوش کی فراہمی یقینی بنانے کی ذمّے داری سونپنا دُرست عمل نہیں۔ خیال رہے کہ وزیرِ اعلی پنجاب، عثمان بُزدار نے حُکم دیا ہے کہ سرکاری افسران بازاروں کا دورہ کریں اور رمضان المبارک میں اشیائے خور و نوش کی ارزاں نرخوں پر فراہمی یقینی بنائیں، لیکن کیا رمضان المبارک کے بعد بھی عوام کو ارزاں نرخوں پر اشیاء کی فراہمی کا کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے یا ماہِ صیام کے بعد عوام کو پھر سے تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔

ماڈل بازاروں اور اتوار بازاروں سے متعلق جب ہماری وزیرِ اعلی کے مُشیر اور چیئرمین پرائس کنٹرول کمیٹی، اکرم چوہدری سے بات چیت ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’مَیں ہر اتوار کو بہ ذاتِ خود ماڈل بازاروں کا دورہ کرتا ہوں۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ سرکار کی نسبت ماڈل بازاروں کی حالت کو کافی بہتر بنا یا ہے اور وہ مزید بہتری کی طرف گام زن ہے۔ اس کے علاوہ ہم اتوار بازاروں کو بھی قواعد و ضوابط کا پابند بنا رہے ہیں، تاکہ عوام کو مناسب دام پر اشیائے خور و نوش کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ اب اتوار بازار بھی ماضی کی نسبت بہتر کام کر رہے ہیں۔ حکومت نے پنجاب بَھر میں 309رمضان بازار قائم کیے ہیں، جو 20رمضان المبارک سے عید بازار میں منتقل ہو جائیں گے۔ وفاقی سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ بازار سادہ ہوں گے، جب کہ سابقہ حکومت نے صرف غیر ضروری تام جھام پر 48کروڑ کی خطیر رقم ضایع کر دی تھی۔ تاہم، ہماری کوشش ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم نے دستر خوانوں کی تعداد 18ہزار سے بڑھا کر 20ہزار کر دی ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’رمضان بازاروں میں 19سے زاید اشیاء پر سبسڈی دی جا رہی ہے، جس کے سبب سبزیوں، چینی، چاول، آٹے اور بیسن کی قیمت میں نمایاں کمی آئے گی۔علاوہ ازیں، حکومتِ پنجاب نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کم و بیش 120اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے، جس کے اثرات رمضان بازاروں میں نظر آئیں گے۔ گزشتہ برس رمضان بازاروں میں پیاز 23روپے فی کلو دست یاب تھی اور امسال بھی اسی قیمت پر فروخت یقینی بنائی جائے گی۔ ان بازاروں میں فی کلو چینی کی قیمت میں 10سے15روپے کمی کی گئی ہے، جب کہ مختلف برانڈز کے خوردنی تیل کی قیمت بھی 15سے20روپے کم ہو گی۔ بیسن اور چنے کی دال کو 100روپے کی سطح پر رکھا جائے گا۔ واجبات کی ادائیگی کے بعد یوٹیلیٹی اسٹورز کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے اور یہاں چینی سمیت 300سے زاید اشیاء ارزاں نرخوں پر دست یاب ہوں گی۔‘‘ایک سوال کے جواب میں اکرم چوہدری کا کہنا تھا کہ ’’ایک عام آدمی سبزی منڈی اور فروٹ منڈی میں جانے سے کتراتا ہے اور ہم نے شہریوں کی سہولت کے لیے ان کے داخلی راستے پر فیئر پرائس شاپس قائم کی ہیں، جہاں منڈی سے بھی کم قیمت پر سبزیوں اور پھلوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ رمضان المبارک میں ہمارے ہم سایہ مُلک، بھارت میں اشیائے خور و نوش کی قیمت میں25فی صد رعایت دی جاتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں قیمتیں کئی گُنا بڑھ جاتی ہیں، جس کی حوصلہ شکنی کرنا ہم سب کی ذمّے داری ہے۔ اس سلسلے میں گراں فروشی کے شکار افراد کو وزیرِ اعظم کے سٹیزن پورٹل پر اپنی شکایات کا اندراج کروانا چاہیے۔ موسلادھار بارشوں اور ژالہ باری سے سبزیوں اور پھلوں کی فصلیں تباہ ہونے اور روپے کی قدر میں کمی کے باوجود حکومت نے سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔ ‘‘

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے مُشیر اور چیئرمین پرائس کنٹرول کمیٹی ، اکرم چوہدری کی کاوشیں اپنی جگہ، لیکن منتخب عوامی نمایندے اور سربراہِ حکومت کی حیثیت سے عثمان بُزدار کو بھی شہریوں کی حالتِ زار پر توجّہ دینے اور ماڈل بازاروں کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے رمضان بازاروں کی خاص بات یہ ہے کہ گزشتہ حکومت کی طرح ان کی تزئین و آرایش اور انہیں ایئر کنڈیشنڈ بنانے کے لیے ان پر کروڑوں روپے خرچ نہیں کیے گئے، بلکہ سادگی کو ترجیح دی گئی ہے۔ تاہم، لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل صرف رمضان المبارک ہی میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے پر صَرف کرتی ہے اور اس کے بعد گراں فروشوں کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ماڈل بازاروں کا دائرہ پنجاب کے تمام اضلاع اور تحصیلوں تک بڑھایا جائے، تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت و اعانت ملے۔ حکومتِ پنجاب ان بازاروں کی بہ دولت ایک نیا رجحان قائم کر سکتی ہے، جس سے مہنگائی پر قابو پانے کے ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی لانا بھی ممکن ہے۔ پھر حکو مت کی توجّہ صرف بڑے بازاروں ہی تک محدود ہے، جب کہ گلی محلوں اور چھوٹی بڑی شاہ راہوں پر قائم دُکانوں میں اشیائے خور و نوش سرکاری نرخ پر فروخت نہیں کی جا رہیں۔ لہٰذا، حکومت کو ان دُکانوں کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ 

تازہ ترین