• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ابھی ایک چاند دیکھنے کے مرحلے سے گزرے ہیں کہ دوسرا چاند دیکھنے کا مرحلہ درپیش ہے۔ سال کے سال اس موقع پر عجب بات ہے کہ ایک کشیدگی کی کیفیت ہوتی ہے، مباحثے ہوتے ہیں، شہادتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں، اوپر سے جو اختلاف سامنے آتا ہے وہ تو دل دکھاتا ہی ہے لیکن جب ایک ملک نہیں، ایک صوبہ نہیں، ایک گھر میں دو دو عیدیں ہونے لگتی ہیں تو اور زیادہ دکھ ہوتا ہے۔

یہ کوئی آج کی بات نہیں، ایوب خان کے زمانے میں یہ اختلاف شروع ہوا تھا۔ اُس وقت بھی مولوی حضرات کی مدد طلب کی گئی تھی اور انہیں ہوائی جہاز میں بٹھا کر بلندی پر بھیجا جاتا تھا تاکہ وہ زمین پر اتر کر قوم کو خوشخبری سنائیں مگر جو بات ہر پڑھے لکھے شخص کو حیران کرتی ہے وہ یہ کہ چاند کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کا مولوی صاحب سے کیا تعلق؟ یہ ڈھلتی عمر کے بزرگوار بقول شخصے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو نہیں دیکھ سکتے، یہ چاند کو کیا دیکھیں گے اور وہ بھی چند لمحے پہلے پیدا ہونے والا ہلال۔ ہم نے بڑا زمانہ دیکھا ہے، چھت پر، اٹاری پر، کوٹھے پر، بالا خانے پر چاند دیکھنے کا جو لطف تھا، آج کے بندہ نواز کیا جانیں۔ یہی سرزمین تھی، ایسے ہی موسم تھے، یہی فضا تھی اور ماہ رمضان کی یہی دھوم ہوتی تھی جب چاند دیکھنے پورے پورے کنبے بلندی پر جاکر آسمان میں چاند کو ڈھونڈا کرتے تھے۔ ان میں پیش پیش گھر کے بزرگ نہیں، بچّے ہو ا کرتے تھے۔ سب کی نگاہیں آسمان پر لگی ہوتی تھیں اور مجھے یاد ہے سب سے پہلے کسی بچے کی صدا بلند ہوتی تھی ’’وہ رہا‘‘ ہائے! وہ آواز کانوں میں آنا اور بچے کی گواہی پر سب کا مضطرب ہو جانا، پھر چاند کی نشاندہی کی جاتی تھی، وہ۔ درخت کی شاخ کے پیچھے، وہ الگنی کے اوپر، وہ سائبان کے پیچھے، وہ۔ ادھر۔ وہاں وغیرہ وغیرہ، پھر ہم لوگ کیسی سرشاری کے عالم میں روشنی ہونے کے باوجود روزہ کھولنے کے لئے دوڑتے تھے۔ بس اس کے بعد تو فضا کے رنگ ہی بدل جاتے تھے، وہی روز والا سائرن بجتا تھا یا بڑا پٹاخا چلایا جاتا تھا، ڈھول تاشے بجنے لگتے تھے، مبارک، سلامت کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ کسی کے سر سے آنچل سرک جاتا تھا، کسی کی آنکھیں حیا سے جھک جایا کرتی تھیں اور فضا معطر ہو جایا کرتی تھی۔

اب سوچتا ہوں اور اکثر سوچتا ہوں کہ یہ کیا ہوا کہ وہ دن ہوا ہوئے۔ مولانا کہیں گز بھر لمبی دور بین میں جھانک رہے ہیں اور ہم دم سادھے ہوئے منتظر ہیں کہ حضرت کو چاند نظر آئے تو ہماری عید ہو۔ اگر ہمارے گھرانے کا یہ کام کسی اور ہی کو کرنا ہے تو محکمہ موسمیات کے ماہرین کیوں نہیں۔ عہدِ قدیم میں وہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے چاند تاروں، سورج اور سیاروں کی حرکت کے ایسے گوشوارے تیار کئے تھے جن کو آج تک درست اور بے حد درست مانا جاتا ہے اور آج کے ماہرین ستاروں کی چال کے لئے کسی نئی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ کیا اب ہم اپنے بزرگوں کی ان بیش بہا صلاحیتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ کیا ہم پہلے سے نہیں بتا سکتے کہ چاند کس لمحے نظر آئے گا۔

ہمیں پتا ہے ہماری ان باتوں کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وہ دن کبھی کے رخصت ہوئے جب دوسروں کی سنی جاتی تھی۔ اب تو کچھ کہتے ہیں تو دل پہلے ہی دکھنے لگتا ہے کوئی کان نہیں دھرے گا۔ چلئے، منہ کا مزا بدلنے کے لئے اپنی نوعمری کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ غالباً اُنتیس روزے ہو چکے تھے اور چاند کا نظر آنا یقینی تھا۔ بچے بڑے سب ہی تھک گئے مگر مطلع ابر آلود ہی رہا۔ چاند کو نظر نہ آنا تھا، نہ آیا۔ لوگوں نے اگلے روزے کی تیاری شروع کر دی۔ دن نکلا اور وہی مطلع جس پر بادلوں کا غلبہ تھا، یوں صاف ہو گیا جیسے کل شام کوئی دوسرا ہی آسمان تھا۔ مجھے یاد ہے، بھری دوپہر تھی کہ اچانک بچّوں کا شور اٹھا، چاند چاند کی صدائیں بلند ہوئیں۔ عین ہمارے سروں کے اوپر بالکل نیا چاند چمک رہا تھا۔ جلدی جلدی روزہ کھولا اور نماز کی تیاری شروع ہوگئی۔ وہ عید بھی یاد رہے گی۔

ہمارے کیلنڈرمیں یہی تو ایک روز ہے جب سارے دکھ دور ہو جاتے ہیں، لوگ جب گلے ملتے ہیں تو انسانی جذبے اور احساس کے ایسے دریچے کھلتے ہیں جن کا چلن دوسرے عقیدوں میں بھی نہیں نظر آتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی عید کسی اور کو نصیب نہیں۔ ان ساعتوں کی قدر کرنا چاہئے، ان لمحوں کو بیش قیمت جاننا چاہئے۔ سوچنا چاہئے کہ انسانی رشتے، دردمندی، ہمدردی، سخاوت اور دریا دلی کی یہ گھڑیاں بار بار نہیں آتیں۔ کیا یہ بہت دشوار، بہت ہی مشکل ہے کہ ہم اس کیفیت کو اپنا لباس بنا لیں، ایسا لباس جس پر عطر لگانے کی ضرورت نہ ہو، جو آپ ہی آپ مہکے۔

تازہ ترین