• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہئے رمضان کیسے گزر رہا ہے۔ پہلا عشرہ آدھا رحمتیں بانٹتا چلا گیا ہے۔ موسم بہت سازگار ہے۔ سحری و افطاری بچوں کے ساتھ ہورہی ہے۔ غریبوں میں راشن بھی تقسیم ہورہا ہے۔

کراچی پریس کلب میں عالمی یوم آزادیٔ صحافت، مستقبل کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں منایا گیا۔ میں نے عرض کیا کہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ یہاں اکیسویں صدی کا میڈیا ہے نہ اکیسویں صدی کی لیڈر شپ۔

آپ مانیں یا نہ مانیں ہمارا مستقبل بلاول بھٹو زرداری۔ مریم نواز۔ حمزہ شہباز اور ایمل اسفند یار ولی ہی ہیں۔ بلوچستان میں نواب محمد اکبر بگٹی کے پوتے زین ہوسکتے ہیں۔ قومی سیاسی پارٹیاں کرپشن کے الزامات کے باوجود ہماری نمائندگی کررہی ہیں۔ وہاں قیادت وراثت میں ملتی ہے۔ قائدین کی اس نسل کی عمریں اس وقت 31سے 46سالوں کے درمیان ہیں۔ ماشاء اللہ سب کے پاس ابھی بہت وقت ہے۔ وہ کئی سال تک متحرک اور سرگرم رہ سکتے ہیں۔ اپنے بزرگوں کی طرح انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہے۔

پاکستان میں ایسا تو ممکن نہیں ہے کہ متوسط طبقے سے کوئی ذہین پاکستانی چاہے وہ قیادت کی ہزار صلاحیت رکھتا ہو وہ کسی بڑی مقبول پارٹی کا قائد بن کر سامنے آسکے۔ اس لیے ہمیں اپنے آئندہ کئی سال کے بارے میں انہی نوجوانوں کو سامنے رکھ کر بات کرنا ہے۔

میڈیا میں بھی یہی حال ہے ۔ سیاست ہو کہ صحافت۔ دونوں بیان در بیان پر چل رہی ہیں۔ پہلے غزل پھر جواب آں غزل۔ پرنٹ میں بھی یہی ہوتا تھا۔ سرخیاں سیاستدانوں ہی کی جمتی رہی ہیں۔ اب تیز رفتار ۔ برقی میڈیا بھی یہی چال بتارہا ہے۔خبروں میں بھی ٹاک شوز میں بھی 22کروڑ کا ملک ہے۔ واہگہ سے گوادر تک پھیلا ہوا۔ سیاستدان کتنے ہوں گے چار ہزار پانچ ہزار۔ ان کے علاوہ کروڑوں ہیں۔ کیا وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جو میڈیا پر آسکے۔ انجینئرز اپنے مشکل کاموں میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹرز نئے نئے آپریشن کررہے ہیں۔ پروفیسرز بہت سے معاملات میں تحقیق کرکے نئے موضوعات دریافت کررہے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ زمین کاشت ہورہی ہے۔ زراعت میں نئے تجربات ہورہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس لائق نہیں ہے کہ قوم کو اس سے آگاہ کیا جاسکے۔ صرف کرپشن کی خبریں ہیں۔ وہ بھی صرف سیاستدانوں کی۔ باقی تمام ادارے۔ تمام شعبے پارسا ہیں۔ کہیں بھی ایک پائی کی بد عنوانی نہیں ہوتی ہے۔ نیب جو اعداد و شمار دے دے ۔ وہ حرف آخر ہیں۔ میڈیا رپورٹرز اپنے طور پر تحقیق نہیں کرتے ہیں۔ پولیس نے یہ کہا ہے۔ نیب نے یہ بیان جاری کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز یہ ہے۔ فلاں وزیر کا کہنا ہے۔ میڈیا خود بھی کوئی سراغ لگارہا ہے۔ میڈیا کے پاس تیز رفتار مشینری ہے۔ اطلاعات اور رابطوں کے لیے اب اتنے آلات زیر استعمال ہیں ۔ لیکن قیادت کا بحران ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں قیادت ہو میڈیا۔ یا تعلیمی ادارے سب کا بنیادی فرض یہ ہوتا ہے کہ ملک کو آگے لے جانا ہے۔ جس سے ہر پاکستانی کی زندگی آسان ہوسکے۔ اس کے لیے درد مندی ضروری ہے۔ مسائل کی شناخت۔ پھر جن ملکوں نے یہ مسائل حل کرلیے ہیں ان کا مطالعہ۔ ان سے سبق حاصل کیا جائے۔ قبائلی وفاداریوں کی صدیوں سے نکلا جائے۔ ایک قبیلہ جو اچھا برا کرے گا دوسرا اس کی مخالفت کرے گا پارٹیوں کے ترجمان۔ قبائل کے نقارہ زن ہیں۔ وہ صرف لڑائی کی بات کرتے ہیں۔ جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں۔ مسائل سمیٹنے کی بجائے اور پھیلائے جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس لیے جھانکا جاتا ہے کہ اختلاف کے مزید پہلو نکالے جائیں۔

عمل بہت کم نظر آتا ہے۔ ردّ عمل ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں بچے بھی ردّ عمل کے لیے ہی پیدا ہورہے ہیں۔ ہر نسل کی تربیت بھی ردّ عمل کے لیے ہورہی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ نسل در نسل تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہی نہیں ہورہی ہیں۔ دریافت۔ تحقیق کی طرف کسی نسل کو مائل ہی نہیں کیا جاتا۔ خاندانوں میں بھی یہی کشمکش چلتی ہے۔

حالانکہ پیار سے بیٹھ کر میڈیا والوں سے، لیڈروں سے بات کی جائے تو سب سنجیدگی سے یہی کہتے ہیں کہ وہ ملک کا بھلا چاہتے ہیں۔ خواہشمند ہیں کہ پاکستان آگے بڑھے۔ ان کے مقاصد بھی ایک سے ہیں۔ لیکن ان کو آپس میں قریب نہیں آنے دیا جاتا۔ ایک دوسرے سے لڑوایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ سب سیاستدانوں کے خلاف نفرت تیز ہورہی ہے۔ عوام ان سے بیزار ہورہے ہیں۔

ملک میں کوئی دائرہ تو اب ہونا چاہئے۔ جہاں سب کا اتفاق ہو۔ کم از کم اس دائرے میں تو سب مل جل کر قدم اٹھاتے نظر آئیں۔ اس دائرے کا تعین یہ نوجوان لیڈر کرسکتے ہیں۔ اس دائرے میں۔ سیاسی پارٹیاں۔ جج۔ جرنلسٹ۔ فوج سب مل کر اپنی اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کریں۔ بلاول بھٹو زرداری 31سال کے ہیں۔ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کے پاس بہت وقت ہے۔ وہ مریم بی بی سے ملیں۔ حمزہ سے ملاقات کریں۔ ایمل اسفند یار سے تبادلۂ خیال کریں ۔ شان زین بگٹی سے کچہری کریں۔ اس طرح کے اور نوجوان بھی ہوں گے۔ بلاول نے برطانیہ کی جن درسگاہوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اس کو استعمال میں لائیں۔ پاکستان کے مستقبل کی صورت گری کریں۔ ان کے بزرگوں نے جو غلطیاں کی ہیں ان کی تلافی کریں۔ اپنے ساتھ اور با صلاحیت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملائیں ۔ چاہے قیادت موروثیت میں ملی ہے ۔ ناپسندیدہ ہے۔ لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ قیادت ان کے ہاتھ میں ہی ہے۔ نئے زمانے کے نئے تقاضے انہیں معلوم ہوں گے۔ انہیں یہ بھی احساس ہوگا کہ جاگیرداری۔ سرداری کی جڑیں اب کھوکھلی ہورہی ہیں۔

یہ خطرناک صورت حال ہے کہ عملاً ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخر میں ہیں۔ دنیا سے دوسرے ممالک سے عالمی بینک سے ایشیائی ترقیاتی بینک سے ۔ آئی ایم ایف سے۔ اقوام متحدہ سے ۔ چین سے ہمیں اکیسویں صدی کے تناظر میں معاہدے کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیڈروں کے دماغ ابھی 19ویں یا زیادہ سے زیادہ 20ویں صدی میں اٹکے ہوئے ہیں۔

جس اسٹیبلشمنٹ کی بات کی جاتی ہے وہ اکیسویں صدی میں رفتہ رفتہ داخل ہورہی ہے۔ اس لیے ہمارے معزز سیاسی رہنمائوں کو اوپن مائنڈ سرجری کرنی چاہئے۔ جہاں جہاں رکاوٹیں ہیں دور کرنی چاہئیں۔ بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ سے اکیسویں صدی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ دھواں دھار تقریریں۔ جذباتی لفاظی۔ Rebettles۔ جوابی الزامات یہ سب 20ویں صدی کی روایات ہیں۔ یقینا اسٹیبلشمنٹ کی خواہش بھی ہوگی کہ قائدین کی نئی نسل۔ پرانے تعصبات سے جان چھڑائے۔

بلاول بھٹو زرداری آگے بڑھیں۔ ردّ عمل کی جوابی الزامات کی سیاست چھوڑیں۔ پاکستان کو در پیش مسائل بہت سنگین ہیں۔ جوابی تقریروں سے حل نہیں ہوسکتے۔ ملک میں یونیورسٹیاں بڑی تعداد میں قائم ہوچکی ہیں۔ ان کے وائس چانسلرز سے ملیں۔ ان کی مدد حاصل کریں۔ پارٹیاں اگر اپنے طور پر اچھا کام کرتی ہیں ۔ جیسے سندھ میں تھرکول سے 500میگا واٹ بجلی قوم کو فراہم کی جارہی ہے۔ اس کی تحسین تو ہونی چاہئے۔ مقامی حکومتوں کا اچھا نظام تعلیم قائم ہونے سے ملک کے بڑے مسائل حل ہوسکیں گے۔ بلاول۔ مریم۔ حمزہ۔ ایمل۔ زین مل کر اس کا خاکہ مرتب کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین