• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں بہت سے لبرل کالم نگار ہمیشہ رویتِ ہلال کے مسئلے پر طبع آزمائی فرماتے ہیں،ہمیں اُن سے ہمدردی ہے کہ یہ نسبتاً آسان موضوع ہے۔ بعض حضرات اسے طنز ومزاح کا موضوع بناتے ہیں،اُن سے بھی ہمیں ہمدردی ہے کہ اُن کا گزارا ہوجاتا ہے۔پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت میں مذہبی ذہن کے لوگ موجود ہوتے ہیں،اس لیے میں سیاسی جماعتوں کے پُرجوش کارکنوں سے ہمیشہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ کی جولانیٔ طبع کے لیے سیاست کا میدان بہت وسیع ہے،مذہب کو معاف رکھیں تو بہتر ہے۔ بعض لبرل حضرات اس بات کی دہائی دیتے ہیں کہ سائنس کا زمانہ ہے، ہزار سال کا قمری کیلنڈر بنایا جاسکتا ہے، سائنسی اعتبار سے یہ دعویٰ درست ہے۔جنابِ عمران خان کی اصطلاح کے مطابق بعض وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں، ایک طرف سائنس کی دہائی دیں گے اور دوسری طرف اس کا ماتم کریں گے کہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی شہادتیں کیوں قبول نہیں کی جاتیں، تو سوال یہ ہے کہ اگر آپ سائنس کو روبکار لانے کے دعویدار ہیں تو پہلے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے فیصلوں کا جائزہ لے کر قوم کو بتائیں کہ آیا سائنسی معیار کے مطابق اُن کے فیصلے درست تھے یا نہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ’’رویتِ ہلال ریسرچ کونسل ‘‘ کے خالد اعجاز مفتی آپ کو قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک، بلکہ آنے والے سالوں کا بھی پورا ڈیٹا فراہم کردیں گے۔وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی جناب فواد چوہدری سے بھی ہمیں ہمدردی ہے،ہم منتظر ہیں کہ وہ اپنے ماہرین کی ٹیم سے رویتِ ہلال کا کئی برسوں کا پیشگی کیلنڈر بناکر اُس کی جنابِ مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے توثیق کرادیں، حال یہ ہے کہ پوری ریاست جنابِ پوپلزئی کے سامنے بے بس ہے۔ فواد چوہدری کی کمیٹی میں غلام مرتضیٰ ڈپٹی چیف منیجر اسپیس سائنس سپارکوبطورِ رکن ہیں اور شاید انہیں معلوم نہیں کہ وہ کافی عرصے سے مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کے باقاعدہ رکن ہیں۔ جہاں تک محکمۂ موسمیات کا تعلق ہے،اُن کی پیش گوئیاں ریکارڈ پر ہیں اور مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کا اجلاس میٹ کمپلیکس ہی میں ہوتا ہے،جامعۃ الرشید کے پاکستان بھر میں،بالخصوص خیبرپختونخوا میں، علماء پر مشتمل کمیٹیاں ہیں اور ہر ماہ تفصیلی خبر چھپتی ہے، وہ بھی ہمارے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور اُن سے بھی ریکارڈ حاصل کیا جاسکتا ہے، اُن کے ادارے میں باقاعدہ شعبۂ فلکیات قائم ہے۔ہفتہ 18اگست 2012ء کو میرانشاہ میں عیدالفطر تھی جبکہ اُس دن سعودی عرب اور پشاور میں روزہ تھااور یہ اعلان بھی ’’مقدّس شہادتوں‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اسی طرح 16جولائی 2015کو چاند سورج سے پہلے یا تقریباً ساتھ غروب ہوگیا تھا، لیکن جنابِ پوپلزئی نے غروبِ آفتاب کے بعد شہادتوں کی بنیاد پر چاند کی رویت کا اعلان کردیا۔ سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری صاحب اپنی سیاسی کرامت سے ان مسائل کو کس طرح حل کریں گے۔اگر ماہرینِ فلکیات کی رائے پر کسی نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر سوال پیدا ہوگا کہ آیایہ کیلنڈر امکانِ رویت (Visibility) پر ہوگا یا کسی اور فارمولے پر، کیونکہ مسلمان رویتِ بصری کو مدار بناتے ہیں،جو حدیث پاک میں منصوص ہے۔ سپارکو اور محکمۂ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق اتوار کی شام پاکستان میں کسی بھی مقام پر امکانِ رویت نہیں تھا۔ انگلینڈ کا معیاری وقت ہم سے چار گھنٹے پیچھے ہے،یعنی وہاں چاند کو مزید وقت مل جاتا ہےلیکن وہاں بھی چاند نظر نہیں آیا، بھارت، بنگلہ دیش، عمان اورمراکش میں بھی رمضان المبارک کا آغاز منگل سے ہوا، کیا یہ سب ممالک مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کی پیروی کرتے ہیں؟ ملائیشیا اور ترکی وغیرہ میں کیلنڈر کے مطابق رمضان کا آغاز ہوتا ہےلیکن اُن کا کیلنڈر امکانِ رویت پر مبنی نہیں ہے، اس لیے ہمارے ممالک میں وہ قابلِ عمل نہیں ہوسکتا۔ عرب ممالک اور جنابِ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کسی کو جوابدہ نہیں ہیں، اس لیے ریاستی اعلان کے بعد نہ وہاں ٹیلی وژن پر مباحثے ہوتے ہیں،نہ اخبارات میں آرٹیکل لکھے جاتے ہیں، اُن ممالک میں ریاست کی رٹ چلتی ہے، اپنے ملک کا حال سب کو معلوم ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ شہادتیں نہیں سنی جاتیں، تو شہادت علی الاطلاق روئے زمین کے کسی بھی معیار کے مطابق قطعی حجت نہیں ہے، اگر ہر شہادت قطعی حجت ہوتی تو عدالتوں میں گواہوں پر جرح کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، محض گواہی سن کر فیصلے صادر کردئیے جاتے اوروکالت کا شعبہ کالعدم ہوجاتا، لیکن شہادت کا ردّوقبول قاضی کا اختیار ہے۔ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان شہادات کو سنتی ہے، ماہرین اور علماء جرح کرتے ہیں اور اپنے اطمینان کے مطابق شہادت کے رَدّ یا قبول ہونے کی بابت رائے دیتے ہیں۔ اب یہ حکومت کی صوابدید پر ہے کہ پورے پاکستان،جس میں بعض مستثنیات کے سوا صوبۂ خیبر پختونخوا کے اکثر علاقے شامل ہیں، کو پیشِ نظر رکھتی ہے یا سب کوایک محدود حلقے کے تابع بناتی ہے۔ایسا نہ ہو کہ مخصوص علاقوں کو مطمئن کرنے کی پاداش میں پورے پاکستان کو عدمِ اطمینان میں مبتلا کردیا جائے۔ماہرِ فلکیات ڈاکٹر شاہد قریشی لکھتے ہیں ’’عام طور پر دنیا میں نئے چاند کی رویت یا امکانِ رویت کے حوالے سے قمری ماہ کی 29تاریخ کو تین ریجن ہوتے ہیں، ریجن اے:جس میں ہلال کی واضح رویت کا امکان ہوتا ہے، ریجن بی:جہاں صورتِ حال غیر یقینی ہوتی ہے، ریجن سی:جس میں ہلال کی رویت کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اگر حقیقی رویت کے امکان پر مبنی کوئی مستقل کیلنڈر بنایا جاتا ہے اور ہمارا ملک ریجن بی میں آتا ہو تو اُس صورت میں یہ کیلنڈر قطعی ناکام ہوگا لیکن اگر حقیقی رویت کے امکان پر مبنی کیلنڈر نہیں بنایا جاتا تو یہ رسول اللہﷺ کے احکام کے بالکل منافی ہے۔ شعبہ فلکیات صرف یہ بتا سکتا ہے کہ 29تاریخ کو ہمارا ملک کون سے ریجن میں آتا ہے۔ لیکن اگر یہ ریجن بی میں ہے تو نہ ماہرِ فلکیات اور نہ ماہرِ موسمیات کوئی قطعی پیش گوئی کر سکتا ہے۔ شریعت نے ہمیں پیشگوئی کا نہیں، حقیقی رویت کا حکم دیا ہے۔ اتوار 29شعبان 1440ھ کو ہمارا خطہ ریجن سی میں تھا، یعنی رویت کا امکان ہی نہیں تھا۔ فوادچوہدری صاحب نے رویتِ ہلال پر بھاری رقوم صَرف ہونے کی بات کی ہے اور یہ بات اکثر لوگ لکھتے رہتے ہیں،ریکارڈ نکال کر بتائیں کہ رویتِ ہلال کے حوالے سے19سال میں سرکاری خزانے سے مجھے کیا ملا ہے تاکہ میں چوہدری صاحب کے توسط سے واپس جمع کردوں، وزیراعظم عمران خان سے بھی سوال ہے کہ آیا یہ پی ٹی آئی کا سرکاری موقف ہے؟

تازہ ترین