نواز شریف صاحب جیل چلے گئے، سپریم کورٹ کی دی ہوئی مہلت ختم ہو گئی تھی مزید کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ مریم نواز )ن)لیگ کی جانب سے والد کے شانہ بشانہ سیاسی جدوجہد کی علامت کے طور پر جیل کے دروازے تک اُن کے ہمراہ رہیں۔ شہباز شریف نے واپسی کا اعلان کر کے اب تک کی سیاسی پیش گوئیاں غلط ثابت کر دی ہیں۔ حمزہ شہباز نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد اور اپنے تایا کی گاڑی ڈرائیو کر کے خاندان میں سیاسی اختلافات کی شدت غلط نہیں تو صحیح بھی ثابت نہیں ہونے دی۔
یہ ہوا پہلا حصہ! دوسرا ملاحظہ فرمایئے۔
بلاول بھٹو زرداری اپنے حوالے سے قانوناً تو نہیں عملاً اپوزیشن لیڈر کے قد کاٹھ کا کامیابی سے تاثر دے چکے ہیں۔ گزرے تین چار ہفتوں سے اُن کے سیاسی بیانات منطق، جارحیت، تہذیب، علم اور عملیت کی بہترین مثال ہیں، اُن کے مقابل بیانات کمزور ہیں خصوصاً شیخ رشید کی گفتگو، سیاست کے معاشرتی اخلاق کے تناظر میں قطعی نہیں سنی جا رہی، اب وہ قومی سطح پر ایک طے شدہ منفی سیاسی کردار ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کے تسلسل میں ’’وفاداری بشرط استواری‘‘ کے عظیم تصور کی بے حد و حساب بے عزتی کی ہے، ظاہر ہے لوگ زبان سے چاہے نہ کہیں اُن کے دلوں میں یہ قبیلہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتا ہے۔
آصف علی زرداری، بی بی فریال تالپور، مراد علی شاہ صاحب سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت زیر عتاب ہے، قانون کے تقاضوں سے لے کر کردار کشی تک کے ماحول میں اُن کے شب و روز گزر رہے ہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ کوئی نیا باب نہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جو بھی شور شرابا ہے وہ حسب معمول میڈیا کا ’’روزگاری فرض‘‘ ہے، جس کی ادائیگی میں کوتاہی اُس کے لئے فاقہ مستی اور اکثر لوگوں کے بہترین معیار زندگی کے لئے باعث زوال و بدصورتی ہو سکتی ہے۔
پھر نیا کیا ہے؟ وہی ایک سچ جس کی پیدائش 15اگست 1947کی صبح ہو گئی تھی یعنی پاکستان میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کا پارلیمانی نظام مسلسل چلنے نہیں دیتا، اِس کے مکمل قد آور ہونے سے پہلے ہر بار نوعمری کے مرحلے ہی میں اُس کی کمر توڑ کر اُسے شفایابی کے لئے ’’غیر آئینی اسپتال‘‘ میں داخل کئے رکھتا ہے، تاآنکہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے، جیسا کہ یونہی چل رہا ہے۔
15اگست 1947کی صبح سے ملکی اور قومی سطح کے جو گروہ اور افراد اس پوزیشن میں تھے انہوں نے ’’قومی گناہگاری‘‘ کے اِس کردار کی عنان سنبھال لی، اِس گروہ اور اُن افراد میں سے قانون قدرت کی رو سے بیسیوں لوگوں کا انتقال ہو گیا۔ اُن کی جگہ لینے والوں نے مگر اِس مشن میں کسی قسم کا انقطاع پیدا نہیں ہونے دیا یعنی پاکستان میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کا پارلیمانی نظام مسلسل نہیں چلنے دیا، وہ اپنے پیش روئوں کی طرح اِس مشن میں کامیاب رہے، کامیاب ہیں اور ابھی اُنہیں ’’قومی گناہگاری‘‘ کے اِس مشن کے کامیاب تسلسل کے نتیجے میں طاقت اور عروج کی شان و شوکت حاصل رہے گی، کب تک؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا، البتہ اب عالمی پیمانے پر ’’طاقت‘‘ کے بجائے ’’علم‘‘ کے احترام کا ازلی تصور بیدار ہو رہا ہے اور ’’طاقت‘‘ کے بے جا استعمال کو شرفِ انسانیت کا اول و آخر دشمن ڈیکلیئر کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے ایسے گروہوں اور افراد کی تاریخ کے متعدد پہلو ہیں، ہر پہلو قابلِ شرم، قانون کی توہین، ملک و قوم کے زوال کی عمیق ترین کھائیوں کی پیداواری کھاد رہا ہے، مثالوں کی کمی نہیں، مثلاً اُن طاقتوروں نے اِس ملک کے آغاز ہی میں ’’غدار فیکٹری‘‘ قائم کر لی جس میں یہ اپنی من مرضی کی ’’غدار مصنوعات‘‘ تیار کرتے رہے، پاکستانی تاریخ مشہور ’’غدار مصنوعات‘‘ کے چند مقبول عام نام بطور نمونہ پیش خدمت ہیں۔ (1)محترمہ فاطمہ جناح، (2)حسین شہید سہروردی (3)شیخ مجیب الرحمٰن (4)جی ایم سید (5)خان عبدالولی خان (6)خیر بخش مری (7)عطاء اللہ مینگل (8)اکبر بگٹی اور دیگر اور مزید دیگر۔ لیاقت علی خان کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بی بی شہید کا قتل یہ علیحدہ معاملات ہیں، خالق کائنات کے پاس سب کا حساب موجود ہے، 70برسوں میں رائو انوار کہاں سے پیدا ہوئے، کیوں پیدا کئے گئے، عابد باکسر کون ہے؟ کیوں دندناتا پھر رہا ہے، پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ابواب کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ اِس کا حساب بھی خالق کائنات ہی کے پاس ہے، کمزوروں کی واحد طاقتور عدالت جہاں مظلوم اپنا رونا رو سکتے ہیں۔
عمران خان نے غیر ذمہ داری سے کام نہیں لیا تب بھی اُس کی سیاسی شفافیت ہمیشہ آلودہ رہے گی، طاقت کے علمبردار انسانیت کے ذہنی آزادی کے سفر کو روکنے کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ دس برس اور ’’ڈنڈے‘‘ کا وجود قائم رکھ سکتی ہیں۔ یہ حکومت اپنے دبائو میں ٹوٹ سکتی ہے، اُس کے طاقتور حامی عالمی برادری کے اِس دبائو کا سامنا نہیں کر سکیں گے جو اُن سے طاقتور ہے، نتیجہ یہ کہ درمیانی مدت کے انتخابات یا کچھ اور کی قیاس آرائی کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف تو ایک عالمی ادارہ ہے پاکستان کے تاریخی فطری سفر کو بے جہت کرنے والوں کے قومی گناہوں کے باعث ملک عالمی طاقتوں کی شطرنج بن چکا ہے، شبر زیدی صاحب اس قومی صورتحال میں بیچارے کہاں دکھائی دیں گے؟ اصل یہ ہے، عوام سڑکوں پر آتے ہیں یا نہیں؟
نواز شریف یا آصف زرداری، دونوں کا قومی سیاست میں مقام اور کردار پاکستان کی پس پردہ طاقتور قوتوں یا عمران خان کی تقاریر نے متعین نہیں کرنا، یہ فریضہ ہمیشہ سے تاریخ ادا کرتی آئی ہے، وہی اب ادا کرے گی۔ دونوں اب عمر اور سیاست کے اس حصے میں ہیں جہاں اُنہیں اپنے اپنے کردار کے سیاسی اثاثوں کو زیادہ سے زیادہ بلند و برتر ثابت کرنا ہے، چنانچہ مستقبل کی اصل بحث کا رخ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی جانب ہی رہے گا؟ دونوں کا بیانیہ کیا ہو؟ دونوں اپنے اپنے بیانیے پر قائم رہ سکیں گے یا نہیں؟ دونوں جدید تعلیم یافتہ ہیں، کیا وہ ملک کے قومی سیاسی کلچر کا کوئی نیا باب وا کر سکیں گے یا نہیں؟
ہاں! اپوزیشن جیسے مثلاً حمزہ شہباز وغیرہ آئی ایم ایف، مہنگائی اور لاقانونیت کے طعنے دینا چھوڑیں، اس حمام کی پوزیشن بے حد غیر اخلاقی ہے، بہتر ہو گا جو لباس بچ گیا اس سے بھی محروم نہ ہوں۔