• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو سرخی عجیب سی لگ رہی ہو گی مگر حقیقت یہی ہے بلکہ حالیہ مثال لے لیں آئی ایم ایف نے اِن پارٹیوں کے ملک کو 39ماہ کی قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ بتائیے کسی بھی پارٹی نے اِس انتہائی اہم مسئلے پر اپنی مرکزی مجلس عاملہ کی میٹنگ طلب کی۔ اِس معاہدے کے نکات اور شقوں پر غور کیا گیا۔ اِس سے پہلے بھارت کی جارحیت کے سنگین واقعات ہوئے، امریکہ کی دھمکیاں آتی رہیں، کسی پارٹی نے کوئی تفصیلی نشست کی۔ اگر آپ جاننا چاہیں کہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ(ن)، پی پی پی، جے یو آئی، اے این پی کا نائن الیون کے بارے میں کیا مسلّمہ موقف ہے تو کیا کسی پمفلٹ یا ویب سائٹ پر کوئی پوسٹ موجود ہے؟

پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں۔ الیکشن میں بھی عوام اپنی رائے کا اظہار سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔ الیکشن ہمارے ہاں بے معنی رہتے ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کا اندازِ کار ایسا نہیں ہے جس میں عوام کی بھرپور شرکت ہو، عوام کو پارٹی سربراہ سے جاننے کا حق حاصل ہو۔ میں اگر غلط کہہ رہا ہوں تو مجھے آگے بڑھنے سے روک دیں۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں۔ میری تحقیق اور محسوسات یہ ہیں کہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات سے صورتحال تبدیل ہوئی۔ یہاں سے Electableاور Winning Candidateنے غلبہ حاصل کیا۔ اپریل 1986میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور اتریں، لاکھوں چاہنے والوں کی حمایت کے باوجود اُنہوں نے اپنے اُس تاثر کو آگے بڑھایا جو وہ لندن قیام کے دوران سوچ کر آئی تھیں، ہمیں انتخابات میں Winning Candidateچاہئیں۔ جو خود الیکشن لڑ سکیں اور جیتنے کے امکانات رکھتے ہوں۔ اُس کے بعد الیکشن میں فتح اوّلین مقصد بن گئی۔ عوام کے مسائل کیا ہیں، کیسے حل ہو سکتے ہیں، اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ اُس کے بعد ہی ایک ایم این اے یا ایم پی اے اپنے علاقے کی پوری پارٹی تنظیم پر سبقت حاصل کرنے لگا۔ دَور آصف زرداری کا تھا پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت تھی۔ میں نے پارٹی تنظیم پر بات کے لئے پرویز رشید صاحب سے وقت لیا۔ شملہ پہاڑی کے قریب وزارتِ اطلاعات کے کسی دفتر میں ملاقات ہوئی۔ پارٹی تنظیم موثر کیوں نہ ہے۔ اُن کا واضح جواب تھا کہ قومی اسمبلی کے ممبر مضبوط تنظیم پسند نہیں کرتے۔ برطانیہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں سمجھی جاتی ہے، وہاں بھی اگرچہ پارٹی تنظیم انحطاط پزیر ہے لیکن بنیادی تصور یہی ہے کہ عوام کی بھرپور شرکت ناگزیر ہے۔ رکنیت سازی جاری رہنی چاہئے۔ پارٹی کے ہر رکن کی بات سنی جانی چاہئے۔ اُس کے لئے پارٹی تنظیم کے مختلف مدارج موجود ہیں۔ پارٹی کی شاخیں ملک بھر میں ہیں جن کے عہدیدار کارکن منتخب کرتے ہیں۔ پھر ہر انتخابی حلقے کی ایک کونسل، ایگزیکٹو بورڈ، سینٹرل کونسل، نوجوان، خواتین، ٹریڈ یونین کی تنظیمیں، ہر ایک کے کم از کم ہر ماہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ہر شاخ بھی ماہانہ میٹنگ کرتی ہے۔ یوں عوام کو درپیش مسائل شاخ کے ذریعے پارٹی کی ہائی کمان تک پہنچتے ہیں۔ ہائی کمان بھی ماہانہ میٹنگ کرتی ہے۔ ارکان میں پارٹی پالیسیاں، نیوز بلیٹن، ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے پہنچتی رہتی ہیں۔ سال میں ایک یا دو بار نیشنل کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ جس کے لئے ہر شاخ مندوب منتخب کر کے بھیجتی ہے۔ الیکشن کے دنوں میں شاخ کا کردار اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ انتخابی حلقے کی کونسل شاخوں کی تجاویز میٹنگ میں رکھتی ہے۔ پھر متعلقہ حلقے کے لئے امیدوار کا چنائو ہوتا ہے۔ پارٹی ٹکٹ اُسی کو جاری کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث، قانون سازی یا فیصلوں میں بھی شاخوں سے مسائل تجاویز طلب کئے جاتے ہیں۔ پارٹیوں کے سالانہ قومی کنونشن بہت اہم ہوتے ہیں۔ اُس کے لئے بھرپور تیاری کی جاتی ہے۔

ایک تنظیم یا ڈھانچہ تو یہ ہے۔ حکومت پر پارٹی کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے کمیونسٹ، سوشلسٹ اور زیادہ سنجیدہ قوموں میں ہر وزارت کے لئے الگ پارٹی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک متبادل حکومت ہوتی ہے جو پارٹی حکومت کے دَور میں ہر وزارت پر نظر رکھتی ہے اور جب اپوزیشن میں ہو تو یہ منتظر حکومت کے طور پر کام کرتی ہے۔ نئی نئی ٹیکنالوجی آنے سے پارٹی کی ہائی کمان اور کارکنوں میں رابطے اور زیادہ تیز رفتار ہو گئے ہیں۔ پارٹیاں آن لائن اہم قومی، بین الاقوامی معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی کرتی ہیں۔ بہت معذرت اتنی لمبی بات کرنے پر، آپ بتائیے کہ ہماری قومی سیاسی پارٹیاں کیا اِن خطوط پر چل رہی ہیں۔ رکنیت سازی پر توجہ ہے، عین وقت پر ماہرین تلاش کئے جاتے ہیں۔ جن کی پارٹی پالیسیوں سے وفاداری ضروری نہیں ہوتی۔ کلیدی عہدوں کے لئے بھی اُسی طرح تقرریاں ہوتی ہیں۔ کسی پارٹی کی شہری تنظیم بااختیار اور موثر نہیں ہے۔ اِس لئے سیاسی پارٹیاں بلدیاتی حکومتوں کی مخالفت کرتی ہیں۔ پارٹیوں کا عوام سے، معاشرے سے واسطہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اقتدار چونکہ چور راستوں سے ملنے لگا ہے اِس لئے بھی پارٹی تنظیم نظر انداز کی جارہی ہے۔ ملک گیر پارٹی نیٹ ورک بنانے کے بجائے علاقائی پارٹیوں سے وقتی طور پر تعاون کیا جاتا ہے۔ اِس لئے پارٹی منشور پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیں کہ بندے پورے کرنے کے لئےکس کس پارٹی سے اشتراک کرنا پڑا ہے۔ الیکشن میں جن پارٹیوں کو شکست دینے کے لئے وطن دشمنی تک کے الزامات عائد کئے گئے، وہ آج کابینہ میں ساتھ بیٹھے ہیں۔ اِس سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پارٹی پالیسیاں، مقاصد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف واضح پالیسیاں رکھنے کے باوجود اپنے سیاسی ساتھیوں کی وجہ سے ناکام رہے۔ اندرونی اور بیرونی معاملات پر چوہدری برادران مختلف نظریات رکھتے تھے لیکن حکومت کی چابیاں اُن کے پاس تھیں۔ اِس وقت بھی وہی صورتِ حال ہے۔ اِس لئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عمرانی فلسفہ کس حد تک کامیاب ہوگا۔

پاکستان ہمیشہ سے حکمرانی کے لئے ایک مشکل ملک رہا ہے۔ اس کی ہیئت اور ساخت بنیادی طور پر پیچیدہ تھی اور ہے۔ ایک اسٹیٹ یعنی ریاست بنانے کے لئے سنجیدگی سے کوششیں نہیں ہوئیں۔ پھر بھارت اور افغانستان کی مسلسل معاندانہ پالیسیوں کی بنا پر پاکستان کو ہمیشہ حالت جنگ میں رہنا پڑا ہے۔ اِس حالت میں مملکت کی تعمیر، متوازن معاشرے کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسی مثالیں ہیں کہ اُن معرکوں کے باوجود عوام کی خوشحالی کے راستے اختیار کئے گئے۔ چین کی مثال موجود ہے۔ انڈونیشیا، ترکی کے ماڈل بھی لائقِ تقلید ہیں۔

قومی سیاسی پارٹیاں جب تک اپنا تنظیمی ڈھانچہ ملک گیر سطح پر سنجیدگی سے قائم نہیں کرتیں، ایڈجسٹمنٹ، اشتراک کے افسوں میں مبتلا رہتی ہیں، جمہوریت کے خواب ادھورے رہیں گے، پارٹی تنظیم نہ ہونے سے غیر سیاسی قوتیں، انتہا پسند نظریات مضبوط ہوتے ہیں، ایسے خلا پیدا ہوتے ہیں جو دوسری طاقتیں پر کرتی رہتی ہیں۔ پارٹی تنظیم کا فقدان، ایک مستحکم، معتدل اور روشن خیال سوسائٹی ہی تشکیل ہونے نہیں دیتا، پاکستان کو اکیسویں صدی کے ہم قدم رہنا ہے تو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین