سابق وزیراعظم نوازشریف چھ ہفتوں کے لیے جیل سے باہر آئے تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ان کی دوبارہ گرفتاری سے چند دن پہلے انہیں کھانے پر مدعوکیا چونکہ نوازشریف طبی بنیادوں پر جیل سے نکلے تھے۔ اس لیے وہ کھانے کی دعوت قبول نہ کرسکے معذرت بھیجی گئی اور قبول بھی کرلی گئی۔
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوا تو بلاول بھٹو نے سابق وزیراعظم کی بیٹی اور مستقبل میں ان کی سیاسی وارث مریم نواز کو افطار کی براہ راست دعوت دیدی۔ دونوں کے درمیان کچھ عرصے سے براہ راست رابطہ موجودہے۔ جماعتی سطح پر سینیٹر پرویز رشید مریم نواز جبکہ سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر بلاول بھٹو کے معاون و مشیر ہیں۔
بلاول بھٹو کی طرف سے افطار کی دعوت دراصل مریم نواز کی مسلم لیگ( ن) میں نائب صدر تعیناتی کے بعد ان کی پہلی باضابطہ سیاسی رونمائی بھی تھی۔ مریم اس میں شرکت کی خواہاں تو تھیں مگر یہ ایک مشکل فیصلہ تھا جوبہرحال مریم نواز نے نہیں ان کے جیل میں بھیجے گئے والد نے کرنا تھا۔ نوازشریف نے جیل سے مریم نوازکوافطارپارٹی میں شرکت کی ہدایت کی تو مریم نے پارٹی کا وفد تشکیل دینا شروع کردیا۔ یہاں کچھ حیران کن واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے۔
پارٹی کے اندرایک سینئررہنما سمیت چند افراد نے مریم نواز کو بلاول بھٹو کی افطارپارٹی میں شرکت سے منع کرنا شروع کردیا۔ دراصل یہ صاحبان کسی اور کی زبان بول رہے تھے۔ شاید برطانیہ میں بیٹھے شہبازشریف بھی اس دعوت میں شرکت کے حامی نہیں تھے۔ بلاول بھٹو کی دعوت میں شرکت کے لیے وفد کا چنائو بھی کوٹ لکھپت جیل میں بیٹھے نوازشریف نے کیا۔ رانا ثناء اللہ کے مشورے پر نوازشریف نے وفد میں حمزہ شہباز کو خصوصی طورپرشامل کرکے پیپلز پارٹی کے افطار ڈنر میں شریف خاندان کی ایکتا کو بھی ظاہر کیا۔ دعوت میں شرکت سے ایک رات قبل تک مختلف لوگ مریم نواز کو ایسا کرنے سے روکنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
ادھرنوجوان بلاول بھٹو بھی ذہنی طور پر افطارڈنر اور اسکے ممکنہ نتائج سے آگاہ تھے۔ بلاول بھٹوزرداری اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اکٹھا کررہے تھے تاکہ تمام جماعتیں اکٹھی افطار میں شرکت کرکے سیاسی امورپر باہمی تبادلہ خیال بھی کریں اور متفقہ لائحہ عمل بھی۔ بلاول کے لیے مریم نواز کو بلانے سے بڑا فیصلہ قومی اسمبلی کے دو ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر کو بلانا تھا۔ سوچا یہ گیا کہ ان ارکان کو اپوزیشن اپنے ساتھ رکھے تاکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کسی تصادم سے بھی گریز کیا جائے اور پشتون بھائیوں کے غصے کو بھی کنٹرول میں رکھا جائے لہٰذا ان دونوں ارکان کو بھی دعوت دیدی گئی۔ عملی طورپر بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اکٹھا کرکے یہ پیغام بھی دیدیا کہ پیپلزپارٹی وہ منفرد جماعت ہے جو چاروں صوبوں کی قیادت کو ایک میز پر لا کر بٹھا سکتی ہے۔
اس پس منظر میں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی پہلی باضابطہ سیاسی ملاقات 19مئی کوزرداری ہائوس میں ہوئی۔بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز اس وقت یکساں نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ مریم نواز کے والد کو جیل بھیجا جاچکا ہے جبکہ بلاول کے والد کو جیل بھیجنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ان کے لیے دوسرا اہم چیلنج اپنے والد آصف علی زرداری کا امیج یا عمومی تاثر بھی ہے۔ نیب ان کے والد اورپھپھو فریال تالپور پر سنگین کرپشن کے الزامات عائد کررہی ہے۔ اس میں ان کی کچھ غلطیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ میڈیا میں ماضی کی کئی وجوہات کی بنا پرآصف علی زرداری کے بارے میں موجود منفی تاثر کی آبیاری کی جارہی ہے جو ظاہر ہے بلاول کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس سے بھی بڑھ کریہ کہ جعلی اکائونٹس کیس میں بلاول بھٹو کو بھی گھسیٹا جارہا ہے۔ بعض لوگ خواہشمند ہیں کہ بلاول اپنے والد سے فاصلہ قائم کرکے اپنا ایک الگ تشخص قائم کرے بالکل ایسے ہی جیسے اس کی والدہ نے اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو سے کیا تھا۔ بظاہر بلاول ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح ایسا کچھ کرنے کو تیار نہیں نہ ہی وہ ایسی کسی بات کا اشارہ دیتے ہیں۔ خاندانی اور پارٹی چیلنجز کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ وہ ملک میں جمہوریت اور آزادی اظہار اور ان جیسے دیگر بنیادی مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
ادھر مسلم لیگ (ن) میں نائب صدر کی حیثیت سے مریم نواز ایک موثررہنما کے طورپر ابھری ہیں۔ زرداری ہائوس میں اپوزیشن جماعتوں کے ہمراہ ان کی سیاسی رونمائی تو ہوگئی۔ مگر اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس میں انہوں نے بند کمرے کے اجلاس میں ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے پارٹی ناقدین کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا اوردلائل سے اپنا موقف دیا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پارٹی کے قائدین نے عملی طورپرانہیں اپنا لیڈر تسلیم کرلیاہے۔
مریم نوازجیل جانے کے لیے تیار ہیں مگر وہ ایسا کچھ کرنے کو تیار نہیں کہ جس سے ان کے والد کی تکلیفوں میں اضافہ ہو۔ ان کے چیلنجز میں سب سے اہم ان کے والد کی رہائی اور اسکے بعد پارٹی میں اپنی جگہ بنانا ہے کیونکہ بہرحال ابھی وہ پارٹی کی نائب صدر ہیں۔ صدارت ان کے چچا شہباز شریف کے پاس ہے۔ اگر ان کے چچا کا موجودہ طرز سیاست جاری رہا تو وہ دن دور نہیں کہ انہیں خاندان اور پارٹی کے اندرسے ہی پیچھے ہٹنے کا کہہ دیا جاِئے اور مریم نواز مسلم لیگ کی تاریخ میں پہلی خاتون لیگی صدر بن جائیں اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کی امیدوار بھی۔ مگر اس سب کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب کا زیر التوا کیس ایک بنیادی چیلنج بھی ہے۔ سچ یہ ہے بلاول بھٹو مریم نواز سے زیادہ پارلیمانی تجربے کے حامل ہیں جبکہ مریم نوازسب سے زیادہ آبادی کے صوبے پنجاب میں بلاول پر فوقیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ دونوں نوجوان رہنما اس بات پر بھی متفق ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حکومت کو ختم نہ کیا جائے تاہم اگر وہ خود چھوڑ کر چلے جائیں تو یہ الگ بات ہے۔ عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس ہو یا کسی موقع پر آئندہ انتخابات ملکی سیاست کا مستقبل بلاول بھٹو اورمریم نوازکے ہاتھوں میں ہی نظر آرہا ہے کیونکہ دونوں رہنما تیزی سے حکومت سے مایوسی ہوتی عوامی امیدوں اورامنگوں کا مرکزبنتے جارہے ہیں۔