بار الٰہا! کوئی تیری سلطنت سے کیسے باہر جا سکتا ہے، کوئی زمین پر اکڑ کے اُسے کیسے پھاڑ سکتا اور آسمان کو تھلگی لگا سکتا ہے، ایسی بے کار بدقسمتیوں کی تو قبروں کا بھی کوئی شمار ممکن نہیں۔ رب عظیم! جس طرح کائنات کا ہر ذرہ تیری تخلیقی جیومیٹری کا مقید، ایسے ہی ہماری پیدائش سے لحد تک کی زندگی کا ہر سانس بھی اسی قاعدے کا اسیر۔ ہمارا گزارہ، ہمارا بس، ہماری سلامتی، ہماری طمانیت، ہمارا اچانک ان دیکھی مصیبتوں، آزمائشوں اور بیماریوں سے بچ جانا صرف، ہاں صرف، تیرے کرم بے پایاں، تیرے رحیم و رحمان ہونے کی لامحدود صفت کا صدقہ ہے۔
میرے رب عظیم! وہ جواں سال اسامہ کا والد قمر زماں کائرہ ہو، حمزہ بٹ کے والدین یا ہم، سب تیرے اس رحیم و رحمان ہونے کے ناپیدا کنار احسان کے سائے تلے زندہ رہتے ہیں، یہ جو کائرہ یا سعید اظہر یا سارے پاکستان کے قلب پر آنسوئوں کا آبشار اتر کر بہہ رہا ہے، اُن کی نظریں ساکت، دماغ خاموش، اجسام مرتعش یا ٹھنڈے ہیں، یہ تیری اجازت سے ہے، تیرے احکامات کی رمز میں آہ و بقا تو ہے، بے محابا بین نہیں مگر ہم سب کے پالنے والے! بھلا ہم جن کے پاس ایک لمحہ اپنا نہیں، جن کے بارے میں تو نے ازل سے ابد تک ڈیکلیئر کر دیا ’’اے انساں خسارے میں ہے وہ اپنی اپنی اوقات کے مطابق غم و حزن کے پہاڑ بھی نہیں اٹھا سکتے، الاکہ تو اُنہیں توفیق و استطاعت عطا فرما دے، یا ارحم الراحمین!
وہ قمر زماں کائرہ ہوں، اسامہ کی والدہ اور اس کے قلب و جاں کے ٹکڑے ہوں، ایسا ہی حمزہ بٹ کے لئے ہے، سب تیرے در پر پڑے ماتھا ٹیکے، بلک بلک کر عرض گزار ہیں، ہمارا اسامہ، ہمارا حمزہ بٹ اور یقین کیا ہم نے، تیری جانب سے اسکا اذن مرحمت ہو چکا جیسا کہ عرض گزار کیا جا چکا ’’تیرے احکامات کی رمز میں آہ و بکاہ تو ہے، بے محابا بین نہیںہیں ‘‘۔
رب عظیم! رشتوں کے جینز میں ہماری باہمی پیوستگی تیری تخلیقی حکمت کا وہ لمحہ ہے جس کی تصدیق اور ملکیت تیری ذاتِ بزرگ و برتر کے پاس ہے، جس کے لئے تیری صدائے آگاہی، فرشتوں کے سوال کے جواب پر بلند آہنگ ہوئی تھی۔ ’’جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘ ہم ایمان لائے مولائے رحمت، ہم ایمان لائے ، ہم بار بار دہرائیں گے ’’یومنون بالغیب‘‘ یہی ہماری نجات ہے۔
اور یہ جو باری تعالیٰ! ہم اسامہ، حمزہ بٹ، قمر زمان کائرہ اور حمزہ کے لواحقین کے لئے دوش بدوش کھڑے ہیں، یہ تو ہم تیری رضا اور تیرے پیغمبر نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نصائح اور ہدایات مبارک کے آئینہ میں ان کی رقت، ان کے سوگ اور احساس جدائی کی موت آسا حالت میں اپنے تعلق کا حصہ ڈال رہے ہیں، ہمارے اسامہ، ہمارے حمزہ بٹ تیرے سپرد، انا للہ وانا الیہ راجعون! یہی حق ہے اور یہی حق ہم کبھی یاد نہیں رکھتے، ’’واقعی! انسان خسارے میں ہے!‘‘
اسامہ کو یاد کر کے عطاء نے اپنا سوز دروں بیان کیا اسے ہمیشہ کیلئے ریکارڈ پر رکھ لیں، اس نے لکھا ’’میں قمر زمان کائرہ سے پوری زندگی میں صرف دو ایک بار ملا، آج میں یہ کالم صرف اُن سے تعزیت کیلئے نہیں لکھ رہا بلکہ پوری قوم سے دست بستہ ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کی صفوں میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو سیاست میں گالم گلوچ اور بازاری انداز کا اتنا عادی ہو گیا ہے کہ وہ کسی مرحوم کے لواحقین کے زخموں پر بھی نمک بلکہ مرچیں چھڑکنے سے باز نہیں آتا تو اس کا معاشرتی بائیکاٹ کریں۔ قمر زمان کائرہ اور ان کا خاندان عظیم صدمے سے گزرا ہے اور یہ نامعلوم نسب کے افراد کائرہ کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ اوئے ڈاکو تمہیں تمہاری لوٹ مار کی سزا اِسی دنیا میں مل گئی‘‘۔
مثال سے دل دھلا ہی نہیں ڈوب بھی گیا، ڈوبا ہی نہیں لرزاں آنسوئوں کی پھڑکاہٹیں اسکی دھڑکن خطرناک کر گئیں، البتہ جان برادر! تھوڑا بہت سب کیلئے وقت کا فرق ہے، جانا تو سب نے چھ فٹ نیچے ہی ہے، ایک روز نفرت اور تکبر نے پیپ کا پیالہ بھی لازماً پینا شروع کرنا ہے، رحمت کی دعا ایسی لعین طبائع کیلئے ہی اور رحمت کی دعا اپنے لئے بھی یوں کہ قولِ علیؓ کا ایک مفہوم ہے ’’جو چلے گئے چلے گئے، ہم تیار بیٹھے ہیں‘‘۔
خاموش قمر زمان کو مجیب الرحمٰن شامی کیسے بھلا پاتے جو سماج کی ہر خوشی خصوصاً غمی میں حاضری کو اپنے معمولات کا ورد بنا چکے، چنانچہ وہ لالہ موسیٰ پہنچے، اسامہ کے والد سے نظریں ملائیں’’تیرا اسامہ کہاں سے لائیں؟ انا للہ وانا الیہ راجعون!‘‘ اور پھر انہیں سندیسہ دیا۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
کرشن چندر نے کہیں لکھا تھا یا کہیں کہا تھا! جب کوئی باپ اپنے جوان بیٹے کے لاشے کا جنازہ کندھے پہ اٹھاتا ہے اصلاً وہ مر چکا ہوتا ہے‘‘، ہم وقت کی مضحکہ خیز بے رحمی و من مرضی کی زنجیروں میں بندھے وہاں جا رہے ہیں جہاں وہ لئے جا رہا ہے، جسٹس(ر) صمدانی، جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت لی تھی، شاید اسی لئے فرقہ جبریہ قدریہ سے تعلق رکھتے تھے، ہمارے جیسے زندگی کی موشگافیاں بیان کرتے اکثر ایڑیاں اٹھا لیتے اور زبانیں دراز کر لیتے ہیں، اس سمے ہمیں اپنا مشیت خاک ہونا ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا، یہی ازل ہے اور اسی کا آخر ابد ہے، اور ’’باقی رہ جائے گی تیرے رب کی ذات جو بزرگ و برتر ہے‘‘۔
کائرہ صاحب! اشک حاضر ہیں، اسامہ ہماری گود میں ہے اور ساتھ ہی ہم نے حمزہ بٹ کو بھی لپٹا رکھا ہے، بھلے ایک برس سے بیمار ہوں، پھر بھی اپنے اسامہ کی یاد کا اثاثہ لے کر آپ تک کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں پہنچوں گا ضرور! ان شاءاللہ!