• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عیدالفطر‘‘ اُمتِ مسلمہ کا عظیم دینی و ملی تہوار

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

’’عیدالفطر‘‘ درحقیقت رحمٰن و رحیم پرودگار عالم کی طرف سے اہل ایمان کے لیے پروانۂ مغفرت اور انعام و اکرام کا دن ہے، یہ کائنات کے پالنہار، پروردگار عالم کی میزبانی اور عبادت گزار بندوں کی مسرت و شادمانی کا دن ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ فخر دو عالم، حضرت محمد ﷺ نے ’’عیدالفطر کی عظمت و اہمیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:’’جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے‘‘۔ چناں چہ جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے، کیا بدلہ ہے اس مزدور کا، جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتو، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے ان بندوں کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے عوض اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔بندوں سے خطاب کرکے ارشاد ہوتا ہے، میری عزت کی قَسم اور میرے جلال کی قَسم، میں تمہیں مجرموں کے سامنے رسوا نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)

’’عیدالفطر‘‘ اسلامی تہذیب و ثقافت، مسلم اُمّہ کے اتّحاد و یگانگت، اُخوّت و اجتماعیت، اسلام کی اعلیٰ اقدار اور عظیم دینی و ملّی روایات کی علامت ہے۔ تہذیب و شائستگی کا یہ جشنِ مسرّت، مسلمانوںکے دینی و مذہبی تشخص کا مظہر ہے۔ یہ مُبارک و پُرمسرّت روزِ سعید تقویمِ عیسوی کے مطابق 27 مارچ 624ء بمطابق یکم شوّال 2ھ سے منایا جارہا ہے۔اسلام اور مُسلم اُمّہ کی دینی، مِلّی اور اجتماعی زندگی کا آغاز سرورِکائنات حضرت محمد ﷺ کی ہجرتِ مدینہ سے ہُوا۔ ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ ہی اسلامی تاریخ کا وہ تاریخ ساز اور انقلاب انگیز موڑ ہے، جس سے اسلامی تاریخ اور سنِ ہجری کا باقاعدہ آغاز ہُوا۔ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے’’عیدالفطر‘‘ کا پُر مسرّت دینی و مِلّی تہوار صحابۂ کرامؓ کے ہمراہ عیدگاہ میں نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد مدینے میں منایا۔

’عید‘‘ کا لفظ تین حروف پر مشتمل ہے۔ اس کے لفظی و اصطلاحی معنیٰ بھی تین ہیں۔

(1) ’’عید‘‘ کا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی واپس اور لوٹ کر آنے کے ہیں چوں کہ عید ہر سال واپس لوٹ کر آتی ہے، اس لیے اسے عید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

(2) ’’عید‘‘ کے دوسرے معنیٰ توجّہ کرنے کے ہیں، چوں کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عاجز و بے بس بندوں پر رمضان المبارک میں کی گئی ان کی عبادات اور نیک اعمال پر رحم و کرم فرماتا ہے، انہیں اعزاز و اکرام سے نوازتا ہے، اس لیے اللہ عزّوجل کی خاص عنایات، فضل و کرم اور خصوصی توجّہ کی وجہ سے اسے عید کہا جاتا ہے۔

(3) ’’عید‘‘ کے لفظی معنیٰ مسرّت و انبساط کے بھی ہیں،چوں کہ اس روزِ سعید اہلِ ایمان جشنِ مسرّت مناتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، لہٰذا محاورۃً اسے عید کہا جاتا ہے۔

تاریخی روایات کے مطابق کرّۂ ارض پرجشنِ مسرّت یا خوشی اور شادمانی سے بھرپور تہوار منانے کا آغاز اُس روز سے ہوا، جس دن حضرت آدمؑ کی توبہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی۔ گویا یہ دنیا کی پہلی عید تھی، جو اس خوشی میں منائی گئی۔ دوسری عید یا یومِ مسرّت اُس وقت منایا گیا جب حضرت نوحؑ اور ان کی امّت کو طوفانِ نوح سے نجات ملی۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ پر جب آتشِ نمرود گل زار بنی، اُس روز کی مناسبت سے ان کی امّت عید منایا کرتی تھی۔ حضرت یونسؑ کی امّت اُس روز عید مناتی تھی، جب حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ اور امتحان سے رہائی ملی۔ بنی اسرائیل اُس روز عید منایا کرتے تھے، جس روز انہیں فرعون اور اس کے مظالم سے نجات ملی ۔جب کہ عیسائی اُس روزعید مناتے ہیں، جس روز حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔اس کے بر خلاف اہلِ ایمان کا فلسفۂ عید اورا س کا تصوّر بالکل منفرد اور نرالی شان کا حامل ہے۔

ابنِ حبّان کی روایت کے مطابق 2ھ میں کفر و اسلام کے مابین تاریخ ساز معرکے ’’غزوۂ بدر‘‘ کی انقلاب انگیز اور تاریخ ساز فتح کے بعد جب سرکارِ دو جہاںؐ مدینۂ منوّرہ تشریف لائے تو اس واقعے کے آٹھ دن بعد ’’عیدالفطر‘‘ منائی گئی۔ اسلام کی یہ پہلی عیدِ سعید جنگِ بدر کی فتحِ مبین کے بعد منائی گئی۔

چشمِ تصوّر سے دیکھیے، کتنی پُرمسرّت اور خُوشگوار تھی یہ عیدِ سعید، جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سر پر فتح و افتخار کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اورکتنا ایمان افروز ہوگا اُس پہلی نمازِ عید کا دلکش منظر، جسے صحابۂ کرامؓ نے رسول اللہ ؐ کے ہمراہ تکبیر و تحمید اور تسبیح و تقدیس کی ایمان افروز صدائیں بلند کرتے ہوئے مدینۂ منوّرہ سے باہر عیدگاہ میں جاکر ادا کیا تھا۔اسلام میں ’’رمضان المبارک‘‘ دینی اور رُوحانی حیثیت سے سال کے تمام مہینوں میں سب سے مبارک و محترم اور مقدّس و بابرکت مہینہ ہے۔ یہ پورا ماہِ مبارک خواہشات کی قربانی، عظیم مجاہدے، صبر و ضبط، عبادت و مناجات، احتساب و تزکیۂ نفس اور نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ رمضان المبارک کی اسی دینی اور رُوحانی عظمت و اہمیت کے پیشِ نظر یہ ضروری تھا کہ اس ماہِ مبارک کے اختتام پر جو دن آئے، ایمانی اور دینی برکتوں کے لحاظ سے وہی سب سے زیادہ اس کا متقاضی ہے کہ اسے اُمّتِ مُسلمہ کے جشن و مسرّت کا دن اور دینی و مِلّی تہوار قرار دیا جائے۔ چناںچہ اسی عظمت و اہمیت کے پیشِ نظر اس دن کو ’’عیدالفطر‘‘ قرار دیا گیا۔ اس حقیقت کی ترجمانی رسولِ اکرم ﷺ کے اس ارشادِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔

اہلِ مدینہ کے ’’عید‘‘ کے حوالے سے دو دن مخصوص تھے، جن میں وہ اظہارِ مسرّت کے طور پر جشن مناتے، کھیلا کودا کرتے تھے، جب نبی اکرم ﷺ مدینۂ طیّبہ تشریف لائے، تو آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کا نعم البدل عطا فرما دیا ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔ ‘‘

یومِ مسرت،عید یا خوشی منانے کا تہوار غیر مسلموں اور دیگر مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے۔ایران کے مجوسی نیروز یا نوروز کے نام سے عید مناتے ہیں، یہ ان کا سب سے بڑا پُرمسرّت مذہبی تہوار ہے۔ ان کا عید کا دوسرا دن مہرجان ہے۔ مورخین کا خیال ہے کہ اہل ایران نے نوروز کا دن مہرجان کے دن سے دو ہزار پانچ سو سال قبل منانا شروع کیا تھا۔ ان دونوں تہواروں کے موقع پر انہیں مُشک، عنبر اورعُودِ ہندی تحفتاً دی جاتی تھی۔ نوروز کے دن وہ ایک دوسرے کو زعفران اور کافور دیا کرتے تھے۔

ہندو مت میں عید یا پُرمسرّت مذہبی تہواروں کے حوالے سے جو تصوّر ملتا ہے، اس کے مطابق ’’دیوالی‘‘ اور ’’ہولی‘‘ ان کے دو مقدّس مذہبی تہوار ہیں۔ ’’دیوالی‘‘ کے موقع پر دیے وغیرہ جلائے جاتے ہیں، چراغاں کیا جاتا ہے، یہ تہوار شری رام بھگوان کی یاد میں منایا جاتا ہے، جب کہ ’’ہولی‘‘خوشی اور اظہارِ مسرّت کا وہ تہوار ہے،جب اس مذہب کے پیروکار ایک دوسرے پر رنگ وغیرہ پھینکتے ہیں۔ یہ ’’ہولکا ماتا‘‘ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

جب کہ الہامی مذاہب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی عیدیں مقدّس مذہبی تہواروںکے طور پر منائی جاتی ہیں۔ ’’معجم البلدان‘‘ کے مؤلف یاقُوت حموی کے مطابق نصاریٰ کی چودہ عیدیں ہیں۔ سات کو وہ بڑی عیدیں کہتے ہیں اور سات کو چھوٹی۔ ان کی بڑی عیدیں یہ ہیں۔ ’’بشارت‘‘، ’’زیتونہ‘‘، یہی عیدالشّعانین (PAM SUNDAY) بھی ہے۔ اس کے معنیٰ تسبیح کے ہیں۔ وہ اسے روزوں کے ساتویں اتوار کو مناتے تھے۔ ’’فصح‘‘ یہ ان کی بڑی عید ہے‘‘ ’’خمیس الاربعین‘‘عید الخمیس یہی عیدالعنصرہ (Pentacost Whit Sunday) یہ تہوار ایسٹر سے پچاس دن بعد منایا جاتا ہے۔ ’’عیدالمیلاد‘‘ وہ دن جس دن حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ ’’غطاس‘‘ اس دن عیسائی اپنے بچوں کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں۔ ’’اربعون‘‘ یہ ہیکل میں داخل ہونے کا جشن ہے۔ ’’خمیس العید‘‘ (Holy Thursday) ’’سبت النّور‘‘ یہ ایسٹر سے ایک دن پہلے منایا جاتا ہے۔ ’’احدالجدید‘‘ یہ ایسٹر سے آٹھ دن بعد منایا جاتا ہے۔ ’’تجلّی‘‘ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت مسیحؑ نے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دن اپنے شاگردوں کو جلوہ دکھایا تھا۔ ’’عیدالصّلیب‘‘ یہ بھی ان کا مقدّس مذہبی تہوار اور عید کا دن ہے۔

یاقُوت حموی کے مطابق یہودیوں کی پانچ عیدیں ہیں۔ جن کا ذکر ’’تورات‘‘ میں آیا ہے، جو یہ ہیں:’’عید رأس السّنہ‘‘ (نئے سال کی عید) یہودیوں کے ہاں اس دن کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے ہاں عیدالاضحیٰ کی ہے۔ ’’عیدالمظال‘‘ یہ آٹھ دن رہتی ہے۔ ’’عیدالاسابیع‘‘ (Ten Command Ments) ان کے اعتقاد کے مطابق یہ وہ دن ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے طورِ سینا سے بنی اسرائیل سے خطاب کیا تھا۔ اس خطاب میں احکامِ عشرہ بھی شامل تھے۔ ’’عیدالفور‘‘ ان کی نئی ایجاد ہے۔ ’’عیدالحنکہ‘‘ یہ بھی نئی ایجاد ہے۔ یہ آٹھ دن تک رہتی ہے۔

روایت کے مطابق رسول اکرمﷺ عید کے دن یہ دعا مانگا کرتے تھے:’’اے پروردگار، ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ ہمارا لوٹنا ذلّت و رسوائی کا نہ ہو۔ پروردگار، ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا، نہ اچانک پکڑنا، اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ پروردگار، ہم تجھ سے، حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ، ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی، نفس کا غنیٰ، بقا، ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار، ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق، ریا، بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔ اے دلوں کے پھیرنے والے رب، ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنا، اور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرما، بے شک تُو سب کچھ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘

مسلم امّہ آج جن بے پناہ مسائل اور چینلجز سے دوچار ہے اور جس طرح دورِ حاضر کی نمرودی اور فرعونی طاقتیں اور طاغوتی قوّتیں اسلام اور مسلم امّہ کے خلاف صف آرا ہیں،اس کا تقاضا ہے کہ ہم ’’بُنیانِ مرصوص‘‘ بن کر اخوّت ویگانگت اور اتحادِ امّت کا وہ نمونہ پیش کریں، جس کی تعلیم ہمارا دین دیتا ہے۔اسی میں ہماری عظمت،بقا،اسلام کی سربلندی،دین کی سرفرازی اور امّتِ مسلمہ کی عظمت کا راز مضمر ہے۔جب کہ تسلیم ورضا،ایثار وہم دردی،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری،اعترافِ بندگی،تقویٰ وپرہیزگاری اور رب کی شکر گزاری میں عید کا فلسفہ اور اس کا پیغام پوشیدہ ہے۔

عیدالفطر کے مسنون اعمال

عید کے دن مندرجہ ذیل اعمال مسنون ہیں:(۱) شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا۔ (۲) غسل کرنا ۔(۳) مسواک کرنا ۔(۴) عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس ہوں پہننا ۔(۵) خوشبو لگانا۔ (۶) صبح بہت سویرے اٹھنا۔ (۷) عید گاہ بہت جلدی جانا۔ (۸) عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھجور، چھوہارے وغیرہ کھانا۔ (۹) عید گاہ جانے سے قبل ہی صدقہ فطر ادا کرنا۔ (۱۰) عید کی نماز عید گاہ میں جا کر پڑھنا۔ (۱۱) ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ (۱۲) عید گاہ پیدل جانا۔ (۱۳) عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللّٰہ الحمد‘‘ آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔‘‘حضور ﷺ سے عیدین میں غسل کرنا ثابت ہے۔

سرکارِ دوجہاں یتیموں کے والیﷺ کی شفقت و رحمت اور ایک یتیم بچے کی عید

روایت کے مطابق عید کے دِن رحمتِ عالم ،نور مجسم ﷺ عید کی نماز پڑھنے کے لیے عیدگاہ کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ کچھ ایسے بچوں کو کھیلتے کودتے ہوئے دیکھا،جنہوں نے خوب صورت اوررنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بچوں نے آپ ﷺ کو دیکھ کرسلام کیا تو آپ ﷺ نے مسکرا کر سلام کا جواب ارشاد فرمایا۔ پھر آپ ﷺ کچھ آگے تشریف لے گئے تووہاں ایک بچے کو اداس وپریشان بیٹھے دیکھا۔ آپ ﷺ اس بچے کے قریب جاکررُک گئے اور پوچھا: ”بیٹا ،تمہیں کیا ہوا کہ اداس اورپریشان نظرآرہے ہو؟“ بچے نے روتے ہوئے کہا: ”یارسول اللہ ﷺ!میں یتیم ہوں،میرا باپ فوت ہوچکا ہے جومیرے لیے کپڑے لادیتا ۔میری ماں بھی نہیں ہے جومجھے نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنا دیتی۔ اس لیے میں یہاں اکیلا اداس وپریشان بیٹھا ہوں۔“بچے کی بات سن کر آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آپ ﷺ نے بچے کے سرپرشفقت سے ہاتھ پھیرا اوراس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے اور امّ المومنین سیدہ عائشہؓسے فرمایا: ”اس بچے کو نہلا دو۔“ جب تک اسے نہلایا جاتا، آپ ﷺ نے اپنی چادرِمبارک کے دو ٹکڑے کردِیے اور کپڑے کا ایک ٹکڑا اسے تہبند کی طرح باندھ دِیا گیا اوردوسرااس کے بدن پر لپیٹ دِیا۔پھر آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کے سرپرتیل لگا کر کنگھی کی، حتیٰ کہ جب وہ بچہ تیار ہوکرآپ ﷺ کے ساتھ چلنے لگا تو آپ ﷺ نیچے بیٹھ گئے اور اس بچے سے فرمایا:” آج تم چل کر مسجد کی طرف نہیں جاؤگے،بلکہ میرے کندھوں پر سوار ہوکر جاؤ گے۔“آپ ﷺ نے اس یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کیا اور اس گلی میں میں تشریف لے گئے جس میں بچے کھیل رہے تھے۔جب اُن بچوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ حسرت سے کہنے لگے:”کاش! ہم بھی یتیم ہوتے تو آج ہمیں بھی آپ ﷺ کے کندھوں پر سوار ہونے کا شرف نصیب ہوتا۔“

جب آپ ﷺ مسجد میں تشریف لا کر منبرپر جلوہ افروز ہوئے تو وہ بچہ نیچے بیٹھنے لگا۔آپ ﷺ نے فرمایا:”آج تم زمین پر نہیں ،بلکہ میرے ساتھ منبر پر بیٹھو گے۔آپ ﷺ نے اس بچے کو منبر پر بٹھایا اور اور پھر اس کے سر پر اپنا ہاتھ مبارک رکھ کر ارشاد فرمایا: ”جوشخص یتیم کی کفالت کرے گا اور محبت وشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے،اللہ تعالیٰ اس کے اعمال نامے میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔“مزید فرمایا:”مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اسے مصیبت کے وقت تنہا نہیں چھوڑتا، جوشخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مددکرتا ہے۔جوشخص کسی مسلمان کی مشکل دورکرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت کے دن اس سے سختی دور فرمائے گا۔“

تازہ ترین