بعض حضرات اپنے ذاتی بغض و عناد اور عصبیت کی وجہ سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے مجھے ہدفِ تنقید بناتے ہیں، اُن کی اہمیت اس وقت تک ہے جب وہ اینکر بن کر اسٹوڈیوز یا کالم نگار بن کر کسی بڑے اخبار کے ادارتی صفحے پر رونق افروز ہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے ’’حضرت عمر نے منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا: اے لوگو! عاجزی اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ کے لئے عاجزی اختیار کی، اللہ اُسے سربلند فرمائے گا، وہ اپنے آپ کو اپنے دل میں چھوٹا سمجھے گا لیکن وہ لوگوں کی نظر میں عظیم ہوگا اور جس نے تکبر کیا، اللہ اُسے پست کردے گا، پس وہ لوگوں کی نظر میں حقیر ہوگا جبکہ وہ دل میں اپنے آپ کو بڑا سمجھے گا، وہ کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ بے توقیر ہوگا(شعب الایمان:8140)‘‘۔
ایک صاحب لکھتے ہیں: چیئرمین متنازع ہیں، اُن سے سوال ہے کہ اُن سمیت پاکستان میں کون ایسا شخص ہے جس سے کسی کو اختلاف نہ ہو، لیکن میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں: پاکستان میں دینی مدارس و جامعات کی پانچ ملک گیر تنظیمات کے الائنس ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کا میں سیکرٹری جنرل یعنی امینِ عام ہوں، تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کا صدر ہوں۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان میں تمام مکاتبِ فکر کے جیّد علماء موجود ہیں، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری (ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان)، مولانا یاسین ظفر (ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان)، علامہ افتخار حسین نقوی(رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان)، مفتی محمد ابراہیم قادری (آپ دو مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رُکن رہ چکے ہیں)، شاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد اور دیگر ممتاز علماء شامل ہیں۔ حال ہی میں مکۂ مکرمہ میں رابطہ عالمِ اسلامی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان سے آئے ہوئے ممتاز علماء نے ایک مجلس میں مجھ سے کہا: ’’ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، ہمیں آپ کے فیصلوں پر اعتماد ہے، حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے علماء نے کہا: ہم رمضان المبارک اور عید الفطر آپ کے اعلان کے مطابق کرتے ہیں‘‘۔ نیز پورا صوبۂ پنجاب، صوبۂ سندھ، صوبۂ بلوچستان، صوبۂ خیبرپختونخوا کا بڑا حصہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے فیصلوں پر عمل کرتا ہے، یہ روشن حقیقت دیدۂ کور کو نظر نہیں آتی؟
ہمارے ان لبرل عناصر کی ایک نفسیاتی بیماری یہ ہے کہ خود کو علم کے میدان میں شیخ الکل اور علماء کو علم سے عاری سمجھتے ہیں اور یہ کہ جدید سائنسی دنیا سے علماء نابلد ہیں یا اُسے اہمیت نہیں دیتے، اُن کے پاس کون سی ایسی ڈگری ہے جس تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ علمی اور فکری خیانت اور ریٹنگ کے مرض کی نشاندہی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک فرد کو قومی ادارے کے مقابل لاکر کھڑا کر دیتے ہیں اور بناوٹی انداز میں حب الوطنی کا راگ الاپتے ہیں۔
ایک قابلِ احترام بزرگ نے لکھا: نمازوں کے نقشے کسی وفاق المدارس نے بنائے ہیں، اُن کی خدمت میں گزارش ہے: نمازوں کے نقشے آج کی بات نہیں ہے، یہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور علماء ہی نے ترتیب دیے تھے، ہمارے اداروں میں علم التوقیت کے کورس آج بھی پڑھائے جاتے ہیں اور ماضی میں بھی تھے۔ جامعۃ الرشید میں شعبۂ فلکیات موجود ہے اور فیضانِ مدینہ میں بھی توقیت کا شعبہ کام کر رہا ہے۔ اہلسنت کے پاکستان بھر کے مدارس میں ہمارے ایک فاضل ماہرِ توقیت علامہ محمد عرفان رضوی سال بھر کورسز کراتے رہتے ہیں اور ماہرین نے اُن کی طرزِ تدریس اور شعبے میں علمی ثقاہت کو سراہا ہے، ہمارے اداروں کے ماہرین نئی مساجد کے لئے سَمتِ قبلہ کا بھی تعیُّن کرتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے ایک استاذِ حدیث علامہ محمدموسیٰ روحانی بازی کی قدیم وجدیدفلکیات پر کتاب موجود ہے۔
سائنسی اعتبار سے چاند کے بارے میں چند امور قطعی ہیں :(1)سورج اور چاند کی حرکت، دونوں کا طلوع و غروب، یہ ’’اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان‘‘ سے بھی ثابت ہے۔ یہ ماہرینِ فلکیات کا صدیوں کا مشاہدہ ہے اور انہی مشاہدات میں تطبیق کر کے کلیات ترتیب دیے جاتے ہیں، مسلمان ماہرینِ فلکیات نے، ماہرینِ ریاضی و فزکس نے ان علوم میں کمال پیدا کر کے ’’اُسطرلاب‘‘ نامی آلہ ایجاد کیا تھا، جس سے سورج اور چاند کی چال، اُن کے طلوع و غروب کے اوقات اور نمازوں کے اوقات معلوم کیے جاتے تھے لیکن نیا چاند کب قابلِ رویت ہوتا ہے، فلکیات کی تمام قدیم و جدید نصابی کتابوں میں یہ بحث نہیں ہے، جدید دور میں بھی ماہرینِ فلکیات چاند کی رویت کے بارے میں قطعی معلومات دینے سے قاصر ہیں۔ آج بھی اس کے بارے میں کم از کم بیس سے زائد معیارات مختلف ماہرین نے بیان کیے ہیں، کسی ایک معیار کو تمام ماہرین کے نزدیک مکمل طور پر متفق علیہ یا مُجْمَعْ عَلَیہ قرار نہیں دیا جا سکتا، انہوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں آراء قائم کی ہیں۔ اسی لیے رؤیتِ بصری کی اہمیت کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔
ہمارے ملک میں انتہائی محدود تعداد میں کچھ لوگ علامہ غامدی صاحب کی فکر کے حامل ہیں کہ حدیث میں رویت کو علم کے معنی میں لیا جائے اور اگر سائنسی طور پر معلوم ہوجائے کہ چاند غروبِ آفتاب کے بعد مطلع پر موجود تھا، خواہ چند منٹ ہی سہی اور چاہے کسی بھی حالت میں قابلِ رویت نہ ہو، اُسے موجود مان کر رمضان المبارک اور عید کا آغاز کردیا جائے۔ رؤیتِ ہلال کے نظام پر بات کرنے والے لبرلز اسی نظریے کے حامی ہیں، انہیں روزہ اور عبادات سے چنداں غرض نہیں ہوتی، بس اس امر میں دلچسپی ہوتی ہے کہ ایک قومی تہوار کے طور پر عید ایک دن ہوجائے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ رمضان اور عیدالفطر کا آغاز قومی تہوار نہیں ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ عبادات ہیں اور عباداتِ الٰہیہ شرعی شرائط کے مطابق ادا کی جاتی ہیں، خواہشات یا نت نئے فارمولوں کے تحت یہ کام نہیں ہوسکتا، ورنہ کل کلاں ایسے متجدّدین بھی آئیں گے جو کہیں گے؛ شدید گرمی میں روزہ چھوڑ دیا جائے اور فدیے پر اکتفا کی جائے، اس سے غریبوں کا بھلا ہوگا یا روزے کے دورانیے کو کم کردیا جائے، لیکن الحمدللہ علیٰ احسانہٖ! مسلمانوں میں اپنے دین ومذہب کے حوالے سے اتنی پستی ابھی نہیں آئی اور مستقبلِ قریب میں بھی اس کے آثار نہیں ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
تکرار کے ساتھ ایک طنز کیا جاتا ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور یہ مذہبی لوگ ابھی تک چاند کے نظر آنے یا نہ آنے پر بحث میں الجھے ہوئے ہیں، اس سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ساری جدید سائنسی ،فنی اور فلکیاتی ترقی کی راہ میں اگرکوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہے:’’مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان‘‘ ، اسے ختم کردیا جائے تو ہم اقوامِ عالم کو پیچھے چھوڑ کر چاند اور دیگر سیاروں سے بھی آگے نکل جائیںگے ، بس صرف اس رکاوٹ کے دور ہونے کی دیر ہے، کتنا آسان نسخہ ہے سائنسی ترقی کااور کتنی نادان ہے یہ قوم!یہ معرکہ تو بہت پہلے سَر ہوجانا چاہیے تھا۔