• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرداری اور نواز کی حالت کی ذمہ دار پی پی اور ن لیگ خود ہیں

اسلام آباد ( تبصرہ:… انصار عباسی) نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی گرفتاری کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے پی ٹی آئی پر غصے میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں ہی اُن حالات کی ذمہ دار ہیں جن کا سامنا ان کے رہنمائوں کو آج کرنا پڑ رہا ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دبائو میں آ کر جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تحت نیب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ نیب چیئرمین جاوید اقبال کو نون لیگ کے دور حکومت میں تعینات کیا گیا تھا اور ان کی تعیناتی کیلئے نواز شریف اور آصف زرداری نے اتفاق کیا تھا۔ رسمی لحاظ سے دیکھیں تو جاوید اقبال کا تقرر نون لیگ کے اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان مشاورت کے بعد ہوا تھا۔ اُس وقت پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی اور کسی بھی طرح سے جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تقرر کے عمل میں شامل نہیں تھی۔ نواز شریف العزیزیہ کیس کی وجہ سے جیل میں ہیں، یہ کیس سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نیب کے سپرد کیا تھا، اسوقت مسلم لیگ نون کی حکومت تھی اور نواز شریف خود وزیراعظم تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد نیب نے پیر کے روز آصف زرداری کو گرفتار کیا۔ وہ جعلی اکائونٹس کیس میں ملزمان میں شامل ہیں، یہ کیس ایف آئی اے نے مسلم لیگ نون کے دور میں شروع کیا تھا اور سپریم کورٹ نے تحقیقات اور مزید کارروائی کیلئے نیب کے سپرد کیا تھا۔ اس طرح، جن کیسوں کی وجہ سے نواز شریف اور آصف زرداری جیل میں گئے ہیں وہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی قائم ہوئے تھے۔ اب نیب جو کچھ بھی ان پارٹی رہنمائوں کے ساتھ کر رہا ہے اس پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ چلا رہی ہیں، ان جماعتوں نے نیب پر اپوزیشن جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو ’’سیاسی طور پر نشانہ بنانے‘‘ کا الزام عائد کیا۔ یہ جماعتیں نیب قانون کو کالا قانون بھی قرار دیتی ہیں اور نیب چیئرمین پر صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے منتخب احتساب کا الزام عائد کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اُس وقت احتجاج کر رہی تھیں جب نیب قائم کیا گیا تھا، یہ جماعتیں اس وقت بھی نیب قانون کو کالا قانون کہتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اسے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے رہنمائوں کو نشانہ بنانے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ یہ جماعتیں اس وقت بھی کہتی تھیں کہ پرویز مشرف کے ماتحت نیب پارٹی رہنمائوں کیخلاف سیاسی مقدمات قائم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے میثاق جمہوریت میں نیب آرڈیننس 1999ء کو ختم کرنے کا عزم کیا تھا۔ اس معاہدے پر مئی 2006ء میں لندن میں دستخط کیے گئے تھے۔ یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ نیب کی جگہ آزاد احتساب کمیشن قائم کیا جائے گا۔ میثاق جمہوریت میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ سیاسی طور پر متحرک نیب کو آزاد احتساب کمیشن سے تبدیل کیا جائے گا، کمیشن کے چیئرمین کو وزیراعظم اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت کے بعد نامزد کریں گے اور پارلیمانی کمیٹی اس نامزدگی کی توثیق کرے گی، کمیٹی میں حکومتی ارکان کی تعداد 50؍ فیصد جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 50؍ فیصد ہوگی بالکل اسی طرح جس طرح ججوں کا تقرر عوامی سماعت میں شفاف انداز سے کیا جاتا ہے۔ نامزد کردہ چیئرمین کو سیاسی طور پر غیر جانبداریت، عدالتی موزونیت، معتدل رائے کے معیارات پر پورا اترنا ہوگا اور ان کا اظہار اپنے فیصلوں سے کرنا ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیب اپنے کالے قانون کے ساتھ مشرف کے دور میں متعارف کرایا گیا تھا اور یہ ادارہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی گزشتہ حکومتوں میں کام کرتا رہا۔ 2008ء سے 2013ء سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی اور نہ ہی 2013ء سے 2018ء تک اقتدار میں رہنے والی نون لیگ نے نیب قانون کو ختم کرنے کیلئے کسی بھی طرح سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ دونوں حکومتوں نے نیب قانون کو تبدیل کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹیاں قائم کیں لیکن کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا کیونکہ دونوں حکومتوں نے نیب قانون کو بہتر بنانے کیلئے بھی دلچسپی نہیں دکھائی۔ کوشش صرف یہ رہی کہ اپنی پسند کا چیئرمین نیب لگایا جائے۔ نیب نے پی پی اور نون لیگ کے دور میں کرپشن کی روک تھام کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اس کی بجائے ’’ منضبط تحقیقات‘‘ اور ’’دوستانہ استغاثہ‘‘ کے ذریعےکرپشن کے لاتعداد ہائی پروفائل مقدمات ختم کیے گئے یا پھر با اثر ملزمان کے حق میں انجام تک پہنچائے گئے۔

تازہ ترین