مودود احمد ماجد،جھڈو
اندرون سندھ خاص طور سے جھڈو میں اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کا کاروبار عروج پر ہے ۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت، پولیس اور انتظامیہ نے اس کاروبار کی جانب سے چشم پوشی اختیارکرکے منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ سندھ میں کھانے پینے کی اشیاء کا معیار پرکھنے اور غیر معیاری چیزیں بیچنے والوں کےغیر مؤثرہے۔ جس کی وجہ سے بے شمار دوکانداروں نے اشیائے خورونوش میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ اور جعلی چیزوں کی بھرمار کر رکھی ہے، جن کے استعمال سے لوگ موذی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
اگر شہر کی دکانوں کا سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کوئی دوکاندار کھانے پینے کی چیزوں سمیت زائدالمیعاد ادویات فروخت کرتا ہے تو کوئی ممنوعہ اشیاء کی فروخت کے کاروبار میں ملوث ہے۔ بعض دکاندار حفظان صحت کے اصولوں کے منافی تیار کردہ چیزیں فروخت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ضلع میرپورخاص اورخصوصاً تعلقہ جھڈو کی مارکیٹس میں مختلف لیبل لگا کر انتہائی غیر معیاری اور مضر صحت کوکنگ آئل اور گھی فروخت ہورہا ہے جب کہ "کھلا" گھی اور کوکنگ آئل کی فروخت بھی بغیر لیبارٹری ٹیسٹ کے بلاروک ٹوک جاری ہے۔بعض تاجر درجہ سوم کی اور غیر معروف کمپنیوں کا غیر معیاری گھی اور کوکنگ آئل بھی مارکیٹ میں فروخت کررہےہیں۔ذرائع کے مطابق جھڈو میں ناقص اور کمتر درجہ کے کوکنگ آئل اور گھی کی پچھلے کئی سالوں سے فروخت کھلے عام جاری ہے ۔ جھڈو میں فروخت ہونے والامقامی اور غیر رجسٹرڈ کمپنیوں اورگھروں میں تیار کردہ کوکنگ آئل مقررہ پیمانے سے کم ریفائن کیا گیا ہوتا ہے اور اس کی پیکنگ پر بتائے گئے وٹامنز اور خوبیوں میں سے کوئی خوبی اس میں نہیں پائی جاتی، جس کی وجہ سے صارفین دل، جگر، گردوں، معدے کی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ بعض تاجر کمپنی سے خاص فرمائش کرکے بعض تاجر،اصل سے کم وزن کی پیکنگ کرواتے ہیں اور پورا وزن ظاہر کرکے بیچتے ہیں اسی طرح بعض تھوک فروش علاقے میں کھلا آئل اور گھی بھی سپلائی کر رہے ہیں جو کہ حفظان صحت کے اصولوں کے برعکس انتہائی ناقص اجزاء، چربی اور جانوروں کی ہڈیوں سے تیار کیا گیا ہوتا ہے ۔ بیکری کی اشیاء اسی ناقص تیل اور گھی میں بنائی جاتی ہیں۔بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کو اس کاروبار کا علم ہے لیکن بھتہ مافیا اور رشوت خور افسران کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چند روزقبل اسسٹنٹ کمشنر آصف علی خاصخیلی اور مختیارکار جھڈو، شوکت علی بیجرو نے شہر میں منافع خوروں کے خلاف کارروائی کی تو اس دوران بھی بعض دوکانوں سے زائداالمعیاد اشیاء برآمد کی گئی تھیں لیکن انتظامیہ نے مارکیٹوں میں دو نمبر گھی اور کھلےتیل کا ذخیرہ کرکے فروخت کرنے والی دوکانوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جھڈو میںانسانی زندگیوں کے لیے مہلک گھی اورتیل کی فروخت، کمتر درجے کی نامعلوم کمپنیوں کے اسٹاک، زائد المیعاد اشیاء، پیکنگ پر درج خوبیوں کے برعکس ڈبے میں ناقص مٹیریل کی جانچ پڑتال اور کوالٹی کنٹرول کرنے کے لئے حکام کو فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے اور عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والے کاروباری اور تاجر طبقے کو گرفتار کرکے سخت سےسخت سزا دلوانا چاہئے۔
شکارپور: دوسری جانب شکار پور میںگائے اور بھینس کے نام پر جو وودھ فروخت کیا جارہا ہے اس سے ضٗلع میں موذی امراض پھیل رہے ہیں۔ شکار پور سے روزنامہ جنگ کے نمائندے ، غلام مرتضے ابڑو کی رپورٹ کے مطابق دودھ جوانسانی خوراک کا انتہائی اہم جزوہے،اس نعمت ِ خداوندی کو بھی ہوس کے پجاریوں نے خالص نہیں رہنے دیا۔ اس میں مختلف کیمیاوی مرکبات کی آمیزش کرکے اسے حفظانِ صحت کے اصولوں کے منافی تیار کرکے بازار وں میں فروخت کیا جارہا ہے۔ پہلے تو دودھ میں صرف پانی ملایا جاتا تھالیکن اب دودھ کی مقدار میں اضافے اورگاڑھا کرنے کے لئے پانی کے ساتھ ساتھ مضرِ صحت اشیاء سمیت انسانوں کی صحت کے لیے نقصان کا سبب بننے والے کیمیاوی مادے شامل کئے جارہے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق ڈیٹرجنٹ پاؤڈر کی آمیزش والا دودھ فوڈ پوائزننگ اور معدےکےدیگر پے چیدہ امراض کا سبب بن سکتا ہے، جبکہ دیگر کیمیاوی مرکبات، عارضہ قلب، سرطان، یرقان، پیٹ کے امراض اور دیگرجان لیوہ امراض کو دعوت دے سکتے ہیں۔ معینہ مقدار سے زائددودھ حاصل کرنے کے لئے گوالے اور ڈیری فارمرز، گائے، بھینسوں کو مخصوص قسم کا انجکشن لگاکر دودھ کے مقدار کو دوگنا کردیتے ہیں۔ اس انجکشن سے دودھ کی مقدار تو بڑھ جاتی ہے لیکن اس کے استعمال سے انسانی جانوں پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے کئی بار اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن فوڈ انسپکٹرز اور دیگرذمہ دار اداروں اور افراد کی چشم پوشی کی وجہ سے مارکیٹ میں اس کی فروخت بند نہیں ہوسکی ہےاور اس دودھ سے بنی ہوئی اشیائے خورونوش ، جن میں دہی بھی شامل ہے، انسانی خوراک کا حصہ ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف شکارپور شہر میں ہی یومیہ ہزاروں لیٹردودھ اور منوں کے حساب سے دہی فروخت ہوتا ہے۔ اس کے استعمال کی وجہ سے لوگ سرطان، امراض شکم اور ہیپاٹائٹس جیسی موذی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
چند سال قبل تک اسی قسم کی صورت حال پنجاب کے صوبے میں بھی درپیش تھی لیکن وہاں فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کارروائیوں کے باعث اس رجحان کا تدارک کیا گیا ہے۔ سندھ میں فوڈ کنٹرول اتھارٹی موجودہونے کے بعد بھی کوئی تسلی بخش تبدیلی نظر نہیں آرہی، نہ ہی کوئی قابلِ ذکرکارروائیاں عمل میں آسکی ہیں۔ ضلع شکارپور جو سندھ کا اہم ضلع ہے، یہاں ملاوٹ مافیا کے خلاف کوئی خاطر خواہ کاروائی نہ ہونا انتہائی تشویشناک بات ہے۔ اس انتہائی اہم مسئلے پر حکومت سندھ اور سندھ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کے حکامِ اعلیٰ سمیت ضلعی انتظامیہ کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکامِ بالا اس سنگین مسئلے کی جانب اپنی توجہ مبذول کرکے عوام کو ملاوٹ سے پاک اشیاء کی فروخت کو ممکن بنائیں۔