روس میں مقامی و عالمی دہشتگرد تنظیموں پر عائد پابندی عبوری طور پر اٹھانے کا بل پیش کردیا گیا ہے جس سے روس کی جانب سے طالبان سے تعلقات مزید بہتر کرنے اور تعاون بڑھانے کی راہ ہموار ہونے کاامکان ہے۔
روس کی پارلیمنٹ ڈوما میں بل سینیٹرز کے ایک گروپ نے پیش کیا۔
قانونی مسودے میں کہا گیا ہے کہ ایسی مقامی اور غیرملکی تنظیمیں جو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل ہیں، ان پر پابندی عدالتی فیصلے کی بنیاد پر عارضی طورپر اٹھائی جاسکتی ہے۔ تاہم اس کےلیے پراسیکیوٹر جنرل یا اس کے نائب کو عدالت میں یہ درخواست پیش کرنا ہوگی کہ حقائق کی بنیاد پر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پابندیوں کی فہرست میں شامل اس تنظیم نے دہشتگردی کو بڑھاوا دینے، اسکا جواز پیش کرنے اور اس میں مدد دینے کا عمل ختم کردیا ہے۔
روس نے طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے اور دو طرفہ تعاون بڑھانے کےلیے یہ اقدام کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
اس سے پہلے روس کی سلامتی کونسل کے سیکریٹری سرگئی شوئیگو نے افغانستان کے نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر اخوند سے افغانستان میں بات چیت کی تھی۔ شوئیگو نے روس کی جانب سے دو طرفہ معاشی اور سیاسی تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اشارہ دیا تھا کہ ماسکو کا ارادہ ہے کہ طالبان کو روس کی بلیک لسٹ سے نکال دیا جائے۔
عبدالغنی برادر نے بھی اس ضمن میں شمال جنوب اقتصادی راہداری اور خطے میں معاشی تعلقات مضبوط بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
روسی قانون کے تحت پابندی کا شکار کسی تنظیم پر سے پابندی اٹھائی نہیں جاسکتی تاہم مجوزہ بل منظور ہوا اور عدالتی فیصلہ جاری ہوا تو یہ ممکن ہوجائے گا۔ خطے میں بدلتی صورتحال کے تناظر میں افغانستان سے متعلق روس کا یہ اقدام سفارتی لحاظ سے بھی انتہائی اہم ہوگا۔