• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم نگار جو کچھ دیکھتا، سنتا اور سوچتا ہے اسے کالم کی شکل میں صفحہ قرطاس پر لکھ دیتا ہے۔ سنتے اور دیکھتے سبھی ایک جیسا ہیں فرق صرف سوچ سے پڑتا ہے۔ میں آج کے ملکی سیاسی منظر پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ مصرعہ یاد آتا ہے؎

جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

مختلف کلاسز کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو اس مصرعے کی مزید تصدیق کا سامان ملتا ہے۔ پاکستان کی 60/65سالہ تاریخ کا میں عینی شاہد ہوں۔ اگرچہ پاکستان تقریباً 72سال کا نوجوان اور توانا ملک ہے۔ میں نے اپنی شعوری زندگی میں ہر سال بجٹ کو اسکائی لیب کی مانند آسمان سے گرتے دیکھا ہے لیکن اس سال پی ٹی آئی کے بجٹ نے جس طرح عوام کی چیخیں ’’نکالیں‘‘، مہنگائی کا طوفان برپا کیا اور مایوسی کے سائے پھیلائے، میں نے اس طرح کا منظر اس سے قبل نہیں دیکھا۔ مہنگائی کے اسکائی لیب کو عوام کے کندھوں پر گراتے ہوئے توقع تھی کہ وزیراعظم عوام کے آنسو پونچھیں گے اور انہیں طفل تسلیاں دے کر برداشت کرنے کا مشورہ دیں گے لیکن توقعات کے برعکس وزیراعظم نے اپنے ’’خطابِ نیم شبی‘‘ میں بھی حسب معمول آستینیں چڑھا کر ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘ کا نغمہ گایا اور عوام کی نیندیں حرام کر کے خود مزے سے سو گئے۔ اس رات مجھے مرشدی اقبال کا وہ مصرعہ یاد آیا ؎

تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی

پھر وزیراعظم صاحب نے ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘ کا ترانہ پسِ پشت ڈال کر قوم کو خوشخبری سنائی کہ ’’معیشت مستحکم ہو گئی ہے۔ معیشت ٹیک آف کرے گی، عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر لائیں گے‘‘۔ یقیناً یہ زخم سہلاتی قوم کے لئے خوشخبری ہو گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت مجموعی طور پر اور وزیراعظم صاحب خصوصی طور پر اپنی کریڈیبلٹی یعنی اعتماد مجروح کر چکے ہیں۔ چند ماہ قبل وزیراعظم صاحب نے ملک کے روشن دماغوں کو اکٹھا کر کے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ ’’تیل کا بہت بڑا خزانہ دریافت ہوا ہے، خوشحالی ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے بس بہت جلد ہم تیل برآمد کرنے والا ملک ہوں گے‘‘۔ وزیراعظم کے لبوں سے یہ خوشخبری سننے کے بعد ایک سینئر کالم نگار نے مجھے کال کیا، خوشی سے اس کی آواز بھرا رہی تھی، میں جواباً فقط یہی کہہ سکا کہ اگر یہ وزیراعظم صاحب کی روحانی خبر ہے تو شاید درست ہو لیکن جہاں تک زمینی حقائق کا تعلق ہے ایسی کرامت کی امید فی الحال نہ رکھیں۔ مستقبل کا حال میرا رب جانتا ہے۔ فی الحال تو ہماری سیاسی قیادت عوام کا ہی تیل نکالے گی۔

بہت سے خوش فہم دوست خلوصِ نیت سے اس پیغام کی وڈیوز وائرل کر رہے ہیں کہ بیرون ملک لوگوں کو عمران خان سے بڑی امیدیں ہیں۔ مایوسی کفر ہے۔ میں بھی اُن حضرات میں شامل ہوں جو ابھی تک ’’پُرامید‘‘ اور حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ جنہیں نئے پاکستان کا عکس تو دور دور تک نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس کی صلاحیت کا گمان ہوتا ہے لیکن گڈ گورننس کے قحط کے باوجود وہ اس تبدیلی پر مطمئن ہیں کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ کم سے کم خاندانی جمہوریت اور موروثی اقتدار کا کفر تو ٹوٹا۔ سری لنکا میں خاندانی اقتدار کا کفر ٹوٹتے ٹوٹتے کئی دہائیاں نکل گئیں، بنگلہ دیش میں حسینہ واجد موروثیت کا علم تھامے کھڑی ہیں اور ہندوستان میں جمہوری موروثیت تقریباً دفن ہو چکی۔ لگتا ہے کہ پاکستان کے بعد اب بنگلہ دیش کی باری ہے۔ توقعات اور امیدوں کا چمن سجانے کے باوجود مجھے تشویش ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب ابھی تک ’’نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا‘‘ کے ذہنی حصار سے نہیں نکل رہے۔ سیاسی حوالے سے بالغ قیادت اعلان سے زیادہ کارکردگی کے ذریعے پیغام دیتی ہے۔ اگر جیل بھجوانا مقصد تھا تو منزل حاصل ہوچکی۔ صرف بلاول اور مریم باہر ہیں انہیں بھی جب جی چاہے پکڑ لیں لیکن مجھ جیسے خوش فہم کا سوال ہے کہ حضور اب تک ان مقدمات سے نکلا کیا ہے؟ کتنے ارب قومی خزانے میں آئے ہیں اور قومی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ اگر جواب یہ ہے کہ وائٹ کالر کرائمز میں ریکوری مشکل ہوتی ہے تو پھر مجھے حکومتی صلاحیت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یادش بخیر افتخار چوہدری چیف جسٹس تھے تو انہوں نے ای او بی آئی کا نوٹس لیا۔ اس اسکینڈل میں ملوث تیرہ بڑی پارٹیاں گرفتار ہوئیں جن میں ماشاءاللہ علیم خان بھی شامل تھے۔ صرف ایک رات کے اندر اندر بارہ پارٹیوں نے اربوں واپس کرنے کے چیک تک دے دیئے۔ دہی بھلے والے، ریڑھی بان اور کلرکوں کے اکائونٹس میں اربوں کے آنے جانے کی خبروں سے چند لمحوں کے لئے حیرت تو ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب تک اربوں کھربوں کی منی لانڈرنگ کی کہانیوں سے ملک و قوم کو کیا ملا؟ اگر ابھی تک اتنے مہینوں میں کچھ برآمد نہیں ہوا تو پھر وہی سوال کھڑا ہوگا کہ حکومتی صلاحیت؟ وعدوں کے حسین خواب دکھانے والے، بیرونِ ملک سے ڈالروں کی بارش کی امید دلانے والے، سرمایہ کاری کو خوشخبریاں سنانے والے، قومی لیڈر کی برکت سے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافے کا حسنِ ظن پالنے والے اور معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے نقشے کھینچنے والے زمینی حقائق کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکے۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا، عوام کی سوچ، فکر اور وژن کی تعمیر کرنا، قوم کو انتشار سے نکال کر متحد اور یکسو کرنا، مردہ جسموں میں نئی زندگی کی روح پھونکنا اور رویے بدلنا عظیم قیادت کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ یہ انقلاب محض باتوں سے جنم نہیں لیتا اور نہ ہی عامیانہ قیادت کے بس کا روگ ہوتا ہے۔ تحریک پاکستان کے طالب علمانہ مطالعے نے مجھے یہ سمجھایا ہے کہ 1928(نہرو رپورٹ) سے لے کر 1940(قرارداد لاہور) کے درمیانی بارہ سال کے عرصے میں یہ کارنامہ علامہ اقبال اور قائداعظم نے کر دکھایا۔ کیا ہماری صفوں میں ان کا پیلا سایہ (PALE SHADOW)بھی کہیں موجود ہے؟ دانشور پوچھتے ہیں پاکستان میں انقلاب کیوں نہیں آتا؟ جمہوریت چھوٹی ہو یا بڑی، انقلاب کا راستہ روکتی ہے۔ لوگ بیلٹ باکس کے ریگولر استعمال کے بعد انقلاب کی جمہوری راہیں تلاش کرتے ہیں۔ ووٹ دینے کے بعد عوام ملکہ کیتھرائن والے انقلاب کی آرزو اور جراثیم کو دفن کرآتے ہیں۔ عوام نے دوبار محترمہ بے نظر بھٹو اور تین بار نواز شریف کی جواں سال قیادتوں کو اسی انقلاب کی توقع کے ساتھ ووٹ دیئے۔ گزشتہ سال یہی آرزو پی ٹی آئی کی کامیابی کا سبب بنی لیکن ہر بار انقلاب دھوکہ دے کر نکل گیا۔ سڑکوں پر آ کر تختہ الٹنے یا حرام خوروں کے لئے شاہراہوں پر پھانسیاں سجانے کی توقع عوام سے مت رکھیں!!

جمہوریت معاشرے میں یگانگت، برداشت اور یکجہتی لاتی ہے۔ پارلیمنٹ میں منتخب اراکین نے ہنگامے برپا کر کے اور گتھم گتھا ہو کر قوم کو فقط یہ پیغام دیا کہ نفرت اور تفریق کی لکیریں حد درجہ گہری ہو چکی ہیں۔ سطحی سوچ کی حامل قیادت اس نفرت اور تقسیم کی مضمرات سمجھنے سے قاصر ہے۔ کہنے دیجئے میں ایسی جمہوریت کے مستقبل سے قدرے شاکی ہوں۔ دونوں طرف سے اراکین کو توڑنے اور حکومت کو گرانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ یہ گھنائونا کھیل جمہوری قدروں کو کھا جائے گا۔ حرص و ہوس کی نئی داستانیں رقم ہوں گی۔ ؎

جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

تازہ ترین