• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ پاکستان کی دو ایوانی مقننہ کا اعلیٰ حصہ ہے، اسی لئے قومی اسمبلی کو ایوانِ زیریں اور سینیٹ کو ایوانِ بالا کہا جاتا ہے۔ یہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے قیام کا مقصد تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی دے کر وفاق کی تمام اکائیوں کے تحفظات کا خاتمہ کرنا تھا، اس میں چاروں صوبوں کے علاوہ قبائلی علاقہ جات اور اسلام آباد کی بھی نمائندگی ہے بلکہ 18ویں ترمیم کے بعد اس میں غیر مسلموں کی سیٹیں بھی مختص کی گئی ہیں۔ سینیٹ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی قانون قومی اسمبلی کے بعد اس کی منظوری اور بعد ازاں صدرِ پاکستان کے دستخط سے ہی نافذ العمل ہوتا ہے۔ سینیٹ کا چیئرمین صدرِ پاکستان کا قائم مقام بھی ہوتا ہے چنانچہ ہر سیاسی جماعت اپنے انتہائی معتبر، تجربہ کار سیاستدان اور پروفیشنل افراد سینیٹ کیلئے منتخب کراتی ہے۔ اب ایسے ایوان میں تلخ کلامی کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچنا اور اس سے بچنے کیلئے چیئرمین سینیٹ کا سیکورٹی کا عملہ طلب کرنا نہ صرف اس ایوان کے شایانِ شان نہیں بلکہ اس سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ آخر ایوانوں میں ایسے واقعات رونما کیوں ہو رہے ہیں۔ کیا ان ایوانوں کے معزز اراکین نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ ان کے اس طرزِ عمل کا ملکی عوام اور دنیا میں کیا تاثر جائے گا؟ سیاسی مخالفت اپنی جگہ سیاسی جماعتوں کو ایوان کے تقدس کو فراموش اس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ ایوان کی خاطر خواہ مضبوطی اور بالادستی قائم نہ ہو پانے کی بنیادی وجوہات میں خود اراکین پارلیمان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی شامل ہے۔ بالخصوص جس معاملے پر ایوانِ بالا میں ہنگامہ آرائی ہوئی وہ انتہائی حساس اور نازک معاملہ ہے، جس کو سیاست میں لانا درست نہیں۔ اس کی حساسیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو سیکورٹی طلب کرنا پڑ گئی۔ ایوان کو اپنے تقدس کا خود خیال رکھنا چاہئے اور ایسی چپقلش سے بچنا چاہئے تاکہ کوئی اس پر زبانِ طعن دراز نہ کر سکے۔ ایوانوں کے اراکین کو یہ ازبر ہونا چاہئے کہ جو اپنی عزت خود نہیں کرتا کوئی بھی اس کی عزت نہیں کرتا۔

تازہ ترین