• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکس وہ حق الخدمت ہے جو ریاست اپنی رعایا سے شہری سہولتیں فراہم کرنے کے بدلے میں وصول کرتی ہے کوئی ملک ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا دنیا کے ہر ملک نے ٹیکس جمع کرنے کے لئے اپنے اپنے قوانین بنا رکھے ہیں جن پر سختی سے عمل ہوتا ہے ہر شخص چاہے وہ غریب ہو یا امیرکسی نہ کسی شکل میں کم یا زیادہ ٹیکس دیتا ہے ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ خوشی سے ٹیکس دیتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے سیاسی و معاشی نظام پر مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں اس کے برخلاف لوگ ٹیکسوں کو ناروا بوجھ سمجھتےہیں اور ان کی ادائیگی سے بچنے کے راستے تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حکومتوں کے اقتصادی معاملات سے متعلق تحفظات کا شکار رہتے ہیں پاکستان بھی ایسے ہی ملکوں میں شامل ہے وفاقی مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے مطابق ہمارا ٹیکس ریوینیو جی ڈی پی کا محض گیارہ یا بارہ فیصد ہے جو اس خطے میں سب سے کم ہے حکومت ملک کا دفاع مضبوط بنانے، تعلیم، صحت اور انصاف کے نظام کو درست کرنے اور لوگوں کو دوسری بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ داری اسی صورت میں پوری کر سکتی ہے جب ملک معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہو اس کے لئے ٹیکسوں کی وصولی ضروری ہے تا کہ وہ باہر کی دنیا سے قرضے لینے پر مجبور نہ ہو سکے بدقسمتی سے ہمارے ہاں عمومی تاثر یہ رہا ہے کہ حکمران ٹیکسوں کے پیسے کو کرپشن کے ذریعے اپنی عیاشیوں پر اڑا دیتے ہیں اس لئے ٹیکس دینے سے گریز کیا جاتا ہے موجودہ حکومت اسی لئے کرپشن کے خاتمے اور ٹیکس کلچر کے فروغ کے لئے بہت سے غیر معمولی اقدامات اٹھا رہی ہے ان میں اثاثے ظاہر کر کے ٹیکس ایمنسٹی حاصل کرنے کی اسکیم سب سے نمایاں ہے اس اسکیم کے تحت اثاثوں کے گوشوارے داخل کرنے کی آخری تاریخ 30 جون ہے اور وزیراعظم عمران خان بار بار اپیل کر رہے ہیں کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں کیونکہ اس تاریخ میں نہ تو توسیع کی جا رہی ہے اور نہ آئندہ ایسی کوئی اسکیم لائی جائے گی۔ جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن ’’پاکستان کیلئے کر ڈالو‘‘ میں میزبان حامد میر کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ یہ اسکیم سیاستدانوں اور پبلک آفس ہولڈرز کے سوا سب کیلئے ہے عوام کرپشن کی وجہ سے ٹیکس نہیں دیتے لیکن وہ یقین رکھیں ان کا ٹیکس انہی پر خرچ ہو گا، ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کو کوئی ادارہ تنگ نہیں کرے گا ،ایسا ہو تو مجھ سے براہ راست شکایت کی جا سکتی ہے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عوام اور حکومت اس اسکیم کو مل کر کامیاب بنائیں گے۔ ہمیں پاکستان کے اندر ہی سے قرضوںکی ادائیگی کیلئے دولت اکٹھی کرنا ہو گی۔ وزیراعظم نے مختلف شہروں سے بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کے سوالات کے جواب بھی براہ راست دیئے اور ان کے خدشات اور تحفظات دور کئے۔ پروگرام میں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی موجود تھے انہوں نے بھی میزبان کے علاوہ شرکا کے سوالات کے جواب دیئے اور مختلف پہلوئوں سے اسکیم کی افادیت پر روشنی ڈالی حفیظ شیخ نے بتایا کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے پاس اگر وقت کم ہے تو مقررہ تاریخ تک اثاثے ڈیکلیئر کر دیں ٹیکسوں کی ادائیگی قسطوں میں کر سکتے ہیں یہ اسکیم بنیادی طور پر معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے ہے حماد اظہر نے ایک سوال پر کہا کہ ظاہر کئے جانے والے اثاثے کسی بھی فورم پر بطور ثبوت پیش نہیں کئے جا سکیں گے اس کے علاوہ چھاپے مارنے کے اختیار پر بھی نظرثانی کی جا رہی ہے شبر زیدی نے یقین دلایا کہ سیلز ٹیکس ڈیفالٹر 2 فیصد دے دیں تو پرانی سیل کا نہیں پوچھا جائے گا اثاثہ جات ظاہر کرنے کی اسکیم کے متعلق وزیراعظم اور معاشی ٹیم نے جو وضاحتیں کیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اسکیم ملک و قوم کے معاشی مفاد میں انتہائی اہم ہے اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جس سے اثاثے ڈیکلیئر کرنے والوں کے مفادات پر زد پڑے ایف بی آر میں بھی ان کا ڈیٹا محفوظ ہو گا اس لئے خوفزدہ ہونے کا کوئی جواز نہیں اثاثے رکھنے والوں خصوصاً کاروباری طبقے کو اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہئے اس سے ملک کی اقتصادیات کو تو فائدہ پہنچے گا ہی خود ڈیکلیریشن داخل کرنے والوں کو بھی فائدہ ہو گا ۔

تازہ ترین