میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
دنیا بھر میں حکومتیں ملک کو خوشحال بنانے کے لیے سخت قوانین و ضوابط بناتی ہیں ، اس وقت مختلف طبقات میں پائی جانے والی ناراضگی کا سبب پچھلی تین سے چار دہائیوں کے حالات ہیں، صرف رجسٹرڈ ایکسپورٹ سیکٹر کو زیرو ریٹڈ کیا گیا تھا، لیکن اس میں اَن رجسٹرڈ سیکٹر بھی شامل ہوتا گیا، جس سے غیر دستاویزی معیشت پھیلی،اس وقت وہ لوگ خوفزدہ ہیں کہ جنہوں نے بدعنوانی کی ہے،2002ء میں انکم ٹیکس قانون میں تبدیلی کر کےٹیکس ڈپارٹمنٹ سے تخمینہ کاری کے اختیارات واپس لے لیے گئے، لیکن غیر رسمی کاروبار کرنے والوں اور غیر دستاویزی معیشت پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی،جس کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو12فیصد سے کم ہو کر7فیصد ہوگیا، اب ڈائریکٹ ٹیکسیشن بڑھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ،یہ کہنا درست نہیں کہ صرف فائلر ہی ٹیکس دہندہ ہوتا ہے، بلکہ نان فائلرز بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں،ایسے ٹیکس قوانین بنائے گئے ہیں کہ ٹیکس حکام سے کچھ پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا
مقصود جہانگیر
بجٹ میں عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کی کچھ وجوہ ہیں،صرف 7.5لاکھ افراد سے ٹیکس حاصل کر کے ملک نہیں چلایا جاسکتا، ریونیو ہدف 5,550ارب روپے ٹیکس نیٹ بڑھا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے
اور اس کی گنجایش موجود ہے،ہمیں آیندہ دو سال میں ٹیکس فائلرز کی تعداد 12لاکھ سے بڑھا کر 40لاکھ کرنا ہو گی، آیندہ کسی بھی فرد کو ریٹرن فائل نہ کیے جانے تک بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہو گی، اب کوئی اپنی آمدنی و اخراجات چھپا نہیں پائے گا، اگر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے، تو بہت زیادہ نقصان ہو گا، ٹیکس ریٹرنزفائل نہ کرنے والے خوف میں مبتلا ہیں، ایکسپورٹ سیکٹر پر 7فیصد ٹیکس عاید کیا جا رہا ہے اور جب وہ ایکسپورٹ کر یں گے، تو انہیں اس ٹیکس کی رقم واپس مل جائے گی
زبیر طفیل
نئے مالی سال کے بجٹ میںپراپرٹی انکم کو باضابطہ بنانے کے لیے ہر سیکشن کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے،
پاکستانی شہریوں کی ورلڈ انکم کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ایک باقاعدہ نظام وضع کیا گیا ہے،ٹیکس دہندگان کو کوئی سہولت نہیں دی گئی،پالیسی کے اثرات فوری طور پر نظر نہیں آئیں گے،بجٹ بناتے وقت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اور آئی ایم ایف سے معاہدے کو بھی مدِ نظررکھا گیا،یہاں جو فرد بھی چاہے ٹیکس پریکٹیشنر بن جاتا، حالاں کہ دنیا بھر میں اس کے لیے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے،ہمارے ملک میں ٹیکس دینے کا کلچر ہی نہیں ہے
محمد ریحان صدیقی
جب بھی ایف بی آر کا نام سامنے آتا ہے، تو لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے اور ان پر خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے،
سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونے والے افراد مسلسل عذاب بھگت رہے ہیں، لیکن نہ حکومت کا فائدہ اور ہو رہا ہے اور نہ ہی ٹیکس دہندگان کا،اس وقت جو بھی اصلاحات کی جا رہی ہیں، انہیں عوام میں پزیرائی نہیں مل رہی، ہر شے پر ٹیکس عاید کیا جا رہا ہے ، 50ہزار روپے آمدنی والے افراد کا گزارہ بھی مشکل ہو گیا ہے، کوئی شہری بینک میں رقم جمع کروانے جاتا ہے، تو اس سے اتنے زیادہ سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ لوگوں نے تنگ آ کر اپنے اکائونٹس بند کروانا شروع کر دیے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ ایف بی آر ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل کرلے، لیکن میری خواہش ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے
خالد امین
آیندہ مالی سال کا بجٹ منظور ہونے کے بعد بھی ملکی سیاست میں خاصی گرما گرمی پائی جاتی ہے ۔کم و بیش گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کاروباری طبقے نے وفاقی میزانیہ پیش ہونے کے فوراً بعد ہی اس پر تنقید شروع کر دی۔ پاکستان میں ہمیشہ ہی ٹیکس پالیسی پر سوالات اٹھائے جاتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی ریشو انتہائی کم ہے۔ اس وقت خاصی تگ و دو کے بعد ٹیکس کا تناسب 11فیصد سے کچھ زاید ہوا ہے، جب کہ کچھ عرصہ قبل تک یہ 9فیصد پر برقرار تھا۔ پھر ہماری معیشت کا زیادہ تر انحصار ڈائریکٹ ٹیکسز کے بہ جائے اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے، جن کا مجموعی محصولات میں حصہ تقریباً 75فیصد ہے۔ ایک جانب تو یہ کہا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے اور دوسری جانب بالواسطہ طور پر عوام سے پانی پر بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ 22کروڑ کی آبادی میں صرف 10لاکھ ٹیکس فائلرز شامل ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا بجٹ خسارہ زیادہ ہوتا ہے اور ہم اپنے ریونیو کے اہداف حاصل نہیں کر پاتے۔ رواں مالی سال میں خسارے پر قابو پانے کے لیے 5,550ارب روپے کا ٹیکس ہدف رکھا گیا ہے، جسے معروف ماہر معیشت، ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ’’مشن امپوسیبل‘‘ قرار دیا ہے۔ ہم ہر بار ٹیکس اصلاحات کی بات کرتے ہیں، لیکن ایسا کر نہیں پاتے۔ نیز، یہ حکومت ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی دے چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ’’نئی ٹیکس پالیسی اور اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پرانڈس یونی ورسٹی میں پوسٹ بجٹ فورم منعقد کیا گیا، جس میں مقررین کے سامنے نئی ٹیکس پالیسی اور ایمنسٹی اسکیم سمیت دیگر سوالات رکھے گئے۔ فورم کے مقررین میں کراچی ٹیکس بار کے صدر، محمد ریحان صدیقی، صدر کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن ، مقصود جہانگیر، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زبیر طفیل اور انڈس یونی ورسٹی کے چانسلر، خالد امین نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :نئی ٹیکس پالیسی کے حوالے سے آپ کی رائے ہے؟
خالد امین :میں گزشتہ نصف صدی سے کاروبار سے وابستہ ہوں۔ اس وقت میں ویونگ انڈسٹری کی پاکستان سلک مل ایسوسی ایشن کا چیئرمین اور ایف پی سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کا رکن بھی ہوں۔ میں گزشتہ 50برس سے ایف بی آر سے صرف لڑ ہی رہا ہوں اور مجھے کبھی کامیابی نہیں ملی۔ جب بھی ایف بی آر کا نام سامنے آتا ہے، تو لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے اور ان پر خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین، ملک ریاض نے ویونگ انڈسٹری کو ٹیکس دینے پر آمادہ کیا تھا، جب کہ ہم انکم ٹیکس دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونے والے افراد مسلسل عذاب بھگت رہے ہیں، لیکن نہ حکومت کا فائدہ اور ہو رہا ہے اور نہ ہی ٹیکس دہندگان کا۔
جنگ :اس وقت ٹیکس اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایف بی آر ماضی کے مقابلے میں خاصا فعال ہے اور شہریوں کا ڈیٹا بھی جمع کیا جا رہا ہے، تو اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
خالد امین :اس وقت جو بھی اصلاحات کی جا رہی ہیں، انہیں عوام میں پزیرائی نہیں مل رہی۔ ہر شے پر ٹیکس عاید کیا جا رہا ہے اور 50ہزار روپے آمدنی والے افراد کا گزارہ بھی مشکل ہو گیا ہے۔ کوئی شہری بینک میں رقم جمع کروانے جاتا ہے، تو اس سے اتنے زیادہ سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ لوگوں نے تنگ آ کر اپنے اکائونٹس بند کروانا شروع کر دیے ہیں۔
جنگ :بجٹ میں عاید کیے گئے نئے ٹیکسز کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہیں اور آپ نے بجٹ سے قبل ٹیکس کے بارے میں تجاویز بھی دی ہوں گی، تو اس بارے میں کچھ بتائیں۔
محمد ریحان صدیقی :اگر حالیہ بجٹ کا بغور جائزہ لیا جائے، تو اس میں تین ڈائریکشنز نظر آئیں گی۔ بہت عرصے بعد کوئی ایسا بجٹ پیش کیا گیا ہے کہ جس میں سمت کا تعین کیا گیا ہے۔ پراپرٹی انکم کو باضابطہ بنانے کے لیے ہر سیکشن کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستانی شہریوں کی ورلڈ انکم کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ایک باقاعدہ نظام وضع کیا گیا ہے اور ٹیکس سسٹم کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کنٹرولنگ اور مانیٹرنگ کا بجٹ دکھائی دیتا ہے۔ جب بجٹ تجاویز کے لیے خط بھیجے گئے تھے، تو ان میں ایف بی آر کی طرف سے سہولت کاری کا لفظ بھی استعمال کیا گیا، مگر موجودہ ٹیکس دہندگان کو کوئی سہولت نہیں دی گئی، بلکہ ان کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا۔ تاہم، اس کے اثرات فوری طور پر نظر نہیں آئیں گے۔
جنگ :کیا ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں؟
محمد ریحان صدیقی :میں اس سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو بجٹ کو کس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ بجٹ سے قبل ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی جا چکی تھی اور آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔ پراپرٹی انکم کو دستاویزی بنانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جائیداد کی ٹریل میں خریداری اور فروخت کو مانیٹر کرنے والا شعبہ باہر ہے۔ اب جب اس معاملے کو کور کرنے کی کوشش کی جائے گی، تو موجودہ ٹیکس دہندگان بھی متاثر ہوں گے۔ اسی طرح ہم عوام کا اعتماد بھی بحال کرنا ہے، تو یہ معاملات مستقبل میں آگے بڑھتے دکھائی دیں گے۔
جنگ :ایف پی سی سی آئی اور دیگر کاروباری تجارتی تنظیموں نے پہلی مرتبہ بجٹ پیش کیے جانے کے پہلے ہی دن سے اس پر تنقید شروع کر دی تھی اور اس وقت عوام بھی کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں، تو اس بجٹ میں ٹیکس پالیسی کے لیے حوالے سے کیا خامیاں پائی جاتی ہیں؟
زبیر طفیل :اس بجٹ میں عوام پر ٹیکس کا بوجھ کافی بڑھایا گیا ہے اور اسے بڑھانے کی مختلف وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً 12لاکھ افراد ٹیکس ریٹرنز داخل کرتے ہیں اور ان میں سے بھی 4.5لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن میں لکھتے ہیں کہ وہ ٹیکس ایبل لمٹ سے نیچے ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر صرف 7.5لاکھ افراد اور ادارے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ محصولات کی مد میں جمع ہونے والے 4,000ارب روپے ان ہی سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس وقت ملک پر قرضوں کا بہت زیادہ بوجھ ہے، لہٰذا یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا۔ ہمارے بجٹ کا بڑا حصّہ غیر ملکی قرضوں کا سود ادا کرنے پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ابھی ہم قرضوں کی کوئی قسط ادا نہیں کر رہے، بلکہ صرف سود اتار رہے ہیں، جب کہ باقی ماندہ رقم دفاعی بجٹ، ترقیاتی منصوبوں اور دیگر مدوں میں خرچ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا، صرف 7.5لاکھ افراد سے ٹیکس حاصل کر کے ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ حکومت نے رواں مالی سال میں ریونیو ہدف 5,550ارب روپے رکھا ہے اور یہ ہدف ٹیکس نیٹ بڑھا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے بجٹ کے دوران میں نے حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ کسی بھی فرد کو این ٹی این نمبر کے بغیر بیرونِ ملک جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر اس کا این ٹی این نمبر نہیں ہے، تو اسے ایک فارم دیا جائے، جس میں وہ اپنے گھر کا پتہ اور آمدنی درج کرے۔ اس پر بجٹ بنانے والے وزیر کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے ایسا کیا، تو الیکشن ہار جائیں گے۔ لہٰذا یہ قابلِ قبول نہیں ہے، لیکن حالیہ دنوں میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی ہے کہ غیر ملکی ایئر لائنز پر جانے والا فرد ایک فارم بھرے گا اور یہ وعدہ کرے گا کہ وطن واپسی پر وہ ریٹرن فائل کرے گا۔ البتہ مزدوروں، محنت کشوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اب اس قانون پر عمل درآمد ہو گا۔ آیندہ ایک، دو ماہ تک کسی بھی فرد کو ریٹرن فائل نہ کیے جانے تک بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اب کوئی اپنی آمدنی و اخراجات چھپا نہیں پائے گا، کیوں کہ نادرا اور ایف بی آر کی ویب سائٹ پر سارا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے اور اسے معلوم بھی کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کا کافی دبائو ہے۔ ہمارے ملک پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام ہے اور پچھلے دو برس سے ہر چھ ماہ بعد پاکستان سے کوئی نہ کوئی مطالبہ کر دیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے مطالبے پر پاکستان نے کئی تنظیموں پر پابندی عاید کر دی ہے اور ان کے بینک اکائونٹس منجمد کر دیے ہیں۔ اس وقت پاکستان گرے لسٹ میں شامل ہے اور اگر اسے بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے، تو ہمیں بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ فلوریڈا میں منعقد ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ اجلاس میں بھارت نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروانے کی پوری کوشش کی تھی، لیکن ہمارے دوست ممالک، ترکی، چین اور ملائیشیا نے یہ کہہ کر بھارتی کوشش ناکام بنا دی کہ اگر پاکستان سے پانچ مطالبات کیے جاتے ہیں، تو وہ تین پر تو عمل درآمد کرتا ہی ہے۔
جنگ :اس وقت ملک میں کاروباری سرگرمیاں تھم گئی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ برقرار رہتا ہے، تو حکومت ٹیکس کہاں سے جمع کرے گی؟
زیبر طفیل :ہمیں آیندہ دو سال میں ٹیکس فائلرز کی تعداد 12لاکھ سے بڑھا کر 40لاکھ کرنا ہو گی۔ کاروباری سرگرمیاں اس لیے بھی کم ہو گئی ہیں کہ حکومت نے یہ شرط عاید کر دی ہے کہ مینوفیکچررز سے خریداری کرنے والا فرد اپنا سی این آئی سی نمبر بھی دے۔ جب وہ قومی شناختی کارڈ نمبر دے گا، تو آہستہ آہستہ ٹیکس نیٹ میں آنے لگے گا۔
جنگ: لیکن ایک خوف تو موجود ہے؟
زبیر طفیل: خوف کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی فرد اپنا سی این آئی سی دے گا، تو اس سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ آپ نے اتنے لاکھ کی خریداری کیسے کر لی، جب کہ آپ کا کوئی ریٹرن ہی فائل نہیں ہے۔ لوگ اسی طرح ٹیکس فائلر بننا شروع ہوں گے۔
جنگ :ایف بی آر 4,000ارب کا ہدف حاصل نہیں کر سکا، تو 5,550ارب کیسے جمع کر پائے گا؟
زبیر طفیل :اس کی گنجائش موجود ہے۔ ٹیکس چوری ملی بھگت سے ہوتی ہے۔ اگرچہ اس میں ایف بی آر کے افسران ملوث ہوتے ہیں، لیکن فائدہ کاروباری شخصیات کا ہوتا ہے۔
جنگ :زیرو ریٹنگ ختم کر دینے کے بعد جب انڈسٹری نہیں چلے گی، تو ٹیکس کیسے ملے گا؟
زبیر طفیل :اس کا یہ حل نکالا گیا ہے کہ ایکسپورٹ سیکٹر پر 7فیصد ٹیکس عاید کیا جا رہا ہے اور جب وہ ایکسپورٹ کر دیں گے، تو انہیں اس ٹیکس کی رقم واپس مل جائے گی اور اس پر پانچوں سیکٹرز آمادہ ہیں۔ دوسری جانب چیئرمین ایف بی آر نے اس بات پر بھی آمادگی ظاہر کی کہ وہ خریداری کے وقت سی این آئی سی نمبر بتانے والوں سے ایک برس تک اس کا ذریعۂ آمدن نہیں پوچھیں گے اور انہیں آہستہ آہستہ ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔ جب تک لوگ ٹیکس جمع نہیں کروائیں گے، حکومت عوام کو سہولتیں فراہم نہیں کر پائے گی۔
جنگ :جب ایف بی آر 4,000ارب کا ٹیکس ریونیو ہدف حاصل نہیں کرسکا، تو 5,550ارب کا ہدف کیسے حاصل ہو گا؟
مقصود جہانگیر :دنیا بھر میں حکومتیں ملک کو خوشحال بنانے کے لیے سخت ضوابط بناتی ہیں۔ ان کے خلاف مزاحمت بھی ہوتی ہے، تنقید بھی اور مذاکرات بھی ہوتے ہیں۔ حکومت کوئی ابنارمل اقدامات نہیں کر رہی۔ البتہ اس وقت مختلف طبقات میں پائی جانے والی ناراضگی کا سبب پچھلی تین سے چار دہائیوں کے حالات ہیں۔ ماضی میں غیر دستاویزی معیشت پھیلنے کی اجازت دی گئی ہے، تو تبھی یہ پھیلی۔ تاہم، جن کا کاروبار رجسٹرڈ ہے، انہیں سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں۔ اب اگر ایکسپورٹ سیکٹر پر ٹیکس عاید کیا گیا ہے، تو ایکسپورٹ کے بعد یہ اسے ری فنڈ بھی کرنا چاہیے۔ اگرچہ آج سے دس، بارہ سال قبل صرف رجسٹرڈ ایکسپورٹ سیکٹر کو زیرو ریٹڈ کیا گیا تھا، لیکن اس میں اَن رجسٹرڈ سیکٹر بھی شامل ہوتا گیا۔ یعنی اس رعایت کا غلط استعمال کیا گیا اور اس پر مافیاز نے کنٹرول کر لیا۔ ان مافیاز کو اتنی گنجایش دی گئی کہ آج ہم اس نہج پر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری وجوہ ہیں۔ حکومت کاروباری طبقے کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا چاہتی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ کاروباری شخصیات ملکی برآمدات کو بھی بڑھائیں۔ اس وقت عوام میں ایف بی آر کے حوالے سے منفی تاثر پایا جاتا ہے اور عموماً ٹیکس نیٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن میں نے کبھی نیٹ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایف بی آر کوئی جال پکڑ کر بیٹھا ہو۔ ٹیکس ادا کرنا ہر شہری کی ذمے داری ہے۔ عموماً پاکستان کا دفاعی بجٹ کم کرنے کی بات کی جاتی ہے، تو میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ارد گرد کے حالات ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمارے پڑوس میں دشمن بیٹھے ہیں، جو ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اگرچہ ہمارا دفاعی بجٹ زیادہ ہے، لیکن اگر اسے ہم برداشت نہیں کریں گے، تو پھر کون کرے گا۔ پہلے اس ملک کو محفوظ بنانے کی بات ہو گی۔ اسپتال، اسکول اور دیگر ادارے تبھی ہوں گے کہ جب یہ ملک ہو گا۔ ہم کب تک یہ کہہ کر لوگوں سے ٹیکس لینے سے روکتے رہیں گے کہ اس کا کاروبار تباہ ہو جائے گا۔ اس وقت وہ لوگ خوفزدہ ہیں کہ جنہوں نے بدعنوانی کی ہے اور انہیں ڈر اس بات کا ہے کہ اب ریاست ان سے حساب کتاب لے گی۔ حکومت نے انہیں اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ایک موقع دیا ہے۔ اس پورے خطے میں انکم ٹیکس کا پہلا قانون 1922ء میں متعارف کروایا گیا تھا، جسے برطانوی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ آج بھی یہی قانون مختلف صورتوں میں رائج ہے۔پاکستان میں 2002ء میں اس قانون میں اس وقت تبدیلی آئی کہ جب لوگوں نے یہ شکایت کی کہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ دستاویزی معیشت والوں کو بھی تنگ کر رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت تک پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 12سے 13فیصد تھا اور اس میں سیلز ٹیکس کا حصہ کم سے کم تھا۔ یعنی براہِ راست ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا، جو ریٹرن کے ساتھ جمع کروایا جاتا تھا اور اسی ٹیکس کو ریاست اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ چیمبر کے شور شرابے پر عبداللہ یوسف کاروباری شخصیات سے ملاقات کے لیے گئے اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لیے آسٹریلیا میں رائج ٹیکس کا قانون پاکستان میں نافذ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے تخمینہ کاری کے اختیارات واپس لے لیے گئے، لیکن بے ضابطہ کاروبار کرنے والوں اور غیر دستاویزی پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ یہ فائلر یا نان فائلر کا معاملہ نہیں، بلکہ باقاعدہ انداز میں ٹیکس ادائیگی اور اپنے آمدنی و اخراجات ظاہر کرنے کا معاملہ ہے۔ 2002ء میں جب یہ قانون آیا، تو اس وقت بھی 10سے 12لاکھ ٹیکس فائلرز موجود تھے اور ایف بی آر کو فیلڈ سے واپس بلا لیا گیا۔ اس کے بعد ایف بی آر میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی۔ تخمینہ کاری کا اختیار واپس لینے کا نتیجہ یہ نکلا ریٹرن فائلزر کی تعداد کم ہو کر 7لاکھ ہو گئی اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 7ہو گیا۔ اس کے مقابلے میں 2002ء کے بعد معیشت نے وسعت اختیار کی اور لوگ شہروں کی طرف آنے لگے۔ آج ایک ٹھیلے والا ایک معقول ملازمت کرنے والے فرد سے زیادہ رقم کما لیتا ہے، لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اب انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کیا کرے، کیوں کہ وہ کیش میں کام کرتا ہے اور ہمارے پاس تخمینہ کاری کا اختیار نہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت بڑھی، ٹیکسیشن میں کمی واقع ہوئی اور رجسٹرڈ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ نیز، غیر رسمی معیشت کو سہولتیں فراہم کی گئیں، کیوں کہ حکومت کو اس کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔ جب اسحٰق ڈار وزیرِ خزانہ بنے، تو انہوں نے انکم ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی ریجیم بڑھا دی۔ گرچہ اس کا مقصد معیشت کو دستاویزی بنانا تھا اور اس وقت تنخواہ دار طبقے کے علاوہ جتنا بھی سیلز ٹیکس یا دو ہولڈنگ ٹیکس جمع ہو رہا ہے، وہ غریب افراد تک منتقل ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے محصولات میں کمی واقع ہوئی، جسے اب بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم، اب بھی ایسی کوئی علامت نظر نہیں آ رہی۔ اب ڈائریکٹ ٹیکسیشن بڑھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں، کیوں کہ اسی کی وجہ سے دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو گی۔ آج امیر اور غریب میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ امیر، امیر تر اور غریت، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک غریب کا پورا گھرانہ کام کرتا ہے، تو اس کا خرچہ چلتا ہے۔ اب جہاں تک 80سے 90فیصد بے نامی اکائونٹس کی بات ہے، تو ان میں کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں سے کمائی گئی رقم بھی ہو گی، لیکن یہ رقم کاروبار کے ذریعے ہی حاصل کی گئی ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نامی اکائونٹس کیوں کھلے؟ ہمارے پاس تخمینہ کاری کا اختیار ہے اور نہ تفتیش کا۔ اسی سبب صورت حال بتدریج ابتر ہوئی ہے۔ ہمیں ریاست کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے، بلکہ سیاست دانوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی پالیسیز بنائی کہ جس سے معیشت کو نقصان ہوا۔ تاہم، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ خیرات دینے والے ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے، جب کہ ٹیکس دینے والے ممالک میں 300واں نمبر ہے اور خیرات بھی زیادہ تر لوگ ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والی ندامت کو زائل کرنے کے لیے دیتے ہیں، لیکن ٹیکس ادا کرنے کے بعد کوئی اتنی خیرات نہیں دے سکتا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے۔ ہم نے خود کو کیش اکانومی میں ایڈجسٹ کیا اور فواید کے ساتھ اس کے نقصانات بھی ہوئے۔ فائدہ یہ ہوا کہ پوری دنیا میں کساد بازاری ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی معیشت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور ملک کے بعض قومی ادارے بھی اسی رقم سے چل رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی قومی ذمے داری کو محسوس کرنا چاہیے۔ اس وقت ہمارے سر پر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے اور بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا کہ جب اس سے پہلے حکومت ایک ایمنسٹی اسکیم پیش کر چکی تھی، جس میں شہریوں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے اثاثے ظاہر کر دیں۔ اپنی بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کر دیں اور کھل کر کام کریں۔ اب یہ مہلت ختم ہو چکی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ صرف فائلر ہی ٹیکس دہندہ ہوتا ہے، بلکہ نان فائلرز بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ ہمارا زرعی شعبہ ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ یہ بات غلط ہے۔ زرعی سیکٹر ٹیکس ادا کرتا ہے اور یہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں شمار ہوتا ہے۔ زراعت کے لیے استعمال ہونے والے خام مال پر عاید سیلز ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ اس شعبے کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 4فیصد ہے، جب کہ اس سے 70فیصد افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ اس کے برعکس دیگر پیشہ ور افراد کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ دیہی اور شہری معیشت کے درمیان آڑھتی ہے، جو زرعی مصنوعات خرید کر آگے فروخت کرتا ہے اور اس پر کوئی ٹیکسیشن نہیں ، جب کہ سیاست دان اس کے خلاف کوئی پالیسی نہیں بننے دیتے۔ اسی طرح شہری معیشت میں تاجر یہی کردار ادا کرتا ہے اور یہ لوگ کیش کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ نیز، یہی افراد جائیداد کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے ہیں اور انہوں نے دہشت گردوں کی مالی معاونت بھی کی۔ ہمیں ان عناصر کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا چاہیے۔
جنگ :انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں اور حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے کتنی توقعات وابستہ ہیں؟
مقصود جہانگیر :پچھلی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آ سکے، وہ اس اسکیم میں آ جائیں گے۔ پچھلی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پاکستان کی تاریخ کی کامیاب ترین ایمسنٹی اسکیم تھی اور اس کے نتیجے میں 127ارب روپے پاکستان میں آئے اور اس میں سے آدھی رقم کراچی سے آئی تھی۔ اس کی وجہ برطانیہ اور یو اے ای سمیت دیگر ممالک میں جائیداد سے متعلق بنائے گئے سخت قوانین تھے۔ پچھلے سال جون تک ہمیں ان کے بارے میں غیر رسمی معلومات ملیں اور ستمبر تک مصدقہ معلومات بھی آنا شروع ہو گئیں۔ پھر انہیں ایک اور موقع دیا گیا۔ اس سے پہلے بے نامی ایکٹ آ چکا تھا، لیکن اس کے نفاذ میں سیاست دان رکاوٹ بنے ہوئے تھے، کیوں کہ انہیں اس کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑتی، لیکن فروری میں یہ ایکٹ نافذ ہو چکا ہے۔ یعنی اب اگر کسی نے جائیداد ظاہر نہیں کی اور ریاست اسے حاصل کرنا چاہتی ہے، تو کر سکتی ہے، کیوں کہ اب قوانین بن گئے ہیں۔ اب انکم ٹیکس افسران کی تعیناتیاں ہو گئی ہیں اور ان کو ذمے داریاں تفویض کیے جانے کے علاوہ فنڈز بھی فراہم کر دیے گئے ہیں، جن کی مدد سے وہ جائیداد حاصل کر سکتے ہیں۔ ماضی میں درآمدات کو فروغ دے کر برآمداتی سیکٹر کی حوصلہ شکنی کی گئی اور ہم ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بن کر رہ گئے، حالاں کہ کوئی بھی ریاست اپنی صنعتوں کی مدد کر کے انہیں مشکل سے نکالتی ہے۔ 2002ء کے بعد تخمینہ کاری کا اختیار ٹیکس افسران سے واپس لے لیا گیا اور ایف بی آر کو ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دے دیا گیا، جب کہ لوگ ٹیکس دیتے ہی نہیں تھے۔ اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ قومی آمدنی میں شامل ہونے والی رقم کو ٹیکس میں شامل کیا جائے اور یہ کام تبھی ہو گا کہ جب تمام شہری اپنا قومی فریضہ ادا کریں گے۔
جنگ :شہری ایف بی آر کے رویے سے نالاں ہیں۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
مقصود جہانگیر :میں ایف بی آر کا دفاع نہیں کروں گا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اللہ نہ کرے کسی کو ایف بی آر میں ملازمت ملے۔ ہم پچھلے چار، پانچ برس سے شدید تنائو کا شکار ہیں، کیوں کہ ایک طرف ہمیں ریونیو ہدف دیا جا رہا ہے اور دوسری جانب ہم سے اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں، لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آر ٹھیک کیسے ہو گا۔ ایف بی آر پاکستان کے تمام اداروں سے زیادہ آٹومیٹڈ ہے، تو اس کی آٹومیشن میں مزید اضافہ کر دیا جائے۔ اس وقت وزیر اعظم کو بھی ایف بی آر کے ریکارڈ تک رسائی حاصل ہے۔
جنگ :لیکن اس وقت ہر فرد ہی ایف بی آر کا نام سن کر خوفزدہ ہو جاتا ہے، تو ایسا کیوں ہے؟
مقصود جہانگیر :اگر ٹیکسیشن اتھارٹی کا خوف نہیں ہو گا، تو ٹیکس کون دے گا۔ امریکا میں بھی لوگ ٹیکس جمع کرنے والے اداروں سے ڈرتے ہیں۔ میں بھی رضاکارانہ طور پر ٹیکس نہیں دوں گا۔
جنگ: خوف سے میری مراد شہریوں کو ہراساں کرنا ہے؟
مقصود جہانگیر :لمس کی تحقیق کے مطابق ایک دکاندار 85فیصد ٹیکس بچا لیتا ہے اور 15فیصد ٹیکس والوں کو ادا کرتا ہے۔ اس حوالے سے شہریوں اور ٹیکس جمع کرنے والوں دونوں میں خامیاں پائی جاتی ہیں۔
جنگ :میرا بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا ایف بی آر 5,500ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟
مقصود جہانگیر :پاکستان کے ڈائریکٹ ٹیکسز کا انحصار ٹرانزیکشنز پر ہے۔ جتنی زیادہ ٹرانزیکشنز ریکارڈ ہوں گی، اتنی ہی زیادہ ٹیکسیشن ہو گی اور عموماً یہ کہا بھی جاتا ہے کہ ٹیکسیشن، ٹرانزیکشنز کا ثمر ہوتی ہے۔ پاکستان کی معیشت میں ٹرانزیکشنز ریکارڈ ہو رہی ہیں، ان پر سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس عاید ہے۔
جنگ: لیکن ہماری معیشت کی رفتار بھی آہستہ ہے؟
مقصود جہانگیر : اس معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے ہی 750ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے اور اس کا ٹیکسیشن پر کافی مثبت اثر پڑے گا۔ پھر اب نیب بھی کافی فعال ہے۔ اسی طرح ریاستی و ترقیاتی اخراجات میں بھی کافی کمی کی گئی ہے۔ پھر پچھلے مالی سال میں سرکاری سطح پر 30فیصد بجٹ خرچ نہیں ہوا تھا اور اس کی وجہ سے بھی فرق پڑے گا۔ اب ادارے بہ تدریج بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ البتہ زیرو ریٹ ختم کرنے سے برآمدی سیکٹر پر منفی اثر پڑے گا اور حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں اب ریفنڈ کے حوالے سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں نے بیڈ شیٹس اور یارن پر رپورٹ بھیجی ہے اور اس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ یارن پر 8.9فیصد اور بیڈ شیٹس پر 12.7فیصد ری فنڈ فوراً واپس کیا جائے گا۔
جنگ:کیا ایف بی آر پانچ لاکھ افراد کا ڈیٹا لے سکتا ہے؟
مقصود جہانگیر :پاکستان سمیت دنیا بھر ایسے ٹیکس قوانین بنائے گئے ہیں کہ ٹیکس حکام سے کچھ پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا۔ معلومات اسٹیٹ بینک کے پاس نہیں، بلکہ بینکنگ کمپنیز کے پاس ہوتی ہیں۔
جنگ :لیکن بینک میں موجود رقم کالا دھن تو نہیں ہوتی؟
مقصود جہانگیر :لازمی نہیں کہ وہ ساری وائٹ منی ہو۔ اس وقت بینکوں نے ہمیں معلومات فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔ پہلے ہمیں روکا جاتا تھا اور سیاست دانوں نے ان معلومات کو جمع نہیں ہونے دیا۔ اس سے پہلے کسی بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو اتنا بڑا مینڈیٹ نہیں ملا، جو اس اسکیم کو ملا ہے۔ وزیر اعظم خود تین مرتبہ قوم سے اپیل کر چکے ہیں۔ پہلے قوانین تو بنا دیے جاتے تھے، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا تھا۔ اب قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
جنگ :تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ 6لاکھ کا سلیب زیادہ ہے۔ کیا اسے 8سے 10لاکھ نہیں ہونا چاہیے؟
زبیر طفیل :سالانہ 6لاکھ آمدن پر ماہانہ ایک ہزار روپے ٹیکس عاید ہے اور یہ صرف ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ہے، لیکن جن کی سالانہ تنخواہ 8سے 10لاکھ روپے ہے، تو ان پر بھی کم از کم ٹیکس عاید کرنا چاہیے۔
مقصود جہانگیر :میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ میں بھی عوام تک منتقل نہ ہونے والی ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا تناسب 60سے 70فیصد ہے۔ وہاں تنخواہ دار طبقے پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ اسی طرح کوئی مکان وراثت میں دینے پر 50فیصد ٹیکس عاید ہے اور دو میں سے ایک گھر سے دست بردار ہونا پڑتا ہے، تو اس لحاظ سے اس ملک میں تو عیاشی ہے۔
محمد ریحان صدیقی :اس سے پہلے تنخواہ دار طبقہ 4لاکھ سالانہ آمدنی پر ٹیکس ادا کر رہا تھا اور یہ انکم ٹیکس بجٹ میں پہلے ہی شامل ہو جاتا تھا، لیکن اصل مسئلہ 50فیصد سے 75فیصد پر لے کر جانا ہے۔ اب جہاں تک برطانیہ میں گھر سے دست بردار ہونے کی بات ہے، تو ایسےا فراد کو حکومت رہنے کے لیے چھت فراہم کرتی ہے اور انہیں دیگر بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں، لیکن اگر یہاں کوئی 50ہزار روپے ماہانہ کمانے والا فرد اپنے گھر سے محروم ہو جاتا ہے، تو اس کی داد رسی کون کرے گا۔ ہمیں پاکستان کا موازنہ برطانیہ سے نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنے ملک کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عواقب و نتائج بتانا ہوں گے۔ ہمیں اپنا موازنہ بھارت اور بنگلا دیش سے کرنا چاہیے۔ اب تو بنگلا دیشی ٹکے کی قدر بھی پاکستانی روپے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اب جہاں تک ایف بی آر کے خوف کی بات ہے، تو یہ اس لیے پیدا ہوا کہ جب ٹیکس افسران سے تخمینہ کاری کے اختیارات واپس لیے گئے، تو انہوں نے نئے افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے بہ جائے پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان کی مدد سے اپنا ہدف پورا کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے ان میں خوف پیدا ہوا۔ ٹیکس سسٹم کے تین ستون ہوتے ہیں۔ بزنس مین، ٹیکس کلیکٹر اور تیسرا مڈل مین یعنی ٹیکس ایڈوائزر۔ یہاں جو فرد بھی چاہے ٹیکس پریکٹیشنر بن جاتا، حالاں کہ دنیا بھر میں اس کے لیے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے افراد کو ٹیکس کنسلٹنٹ کیوں منتخب کیا جاتا ہے کہ جنہیں کچھ آتا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں لوگ 5لاکھ روپے دینا قبول کر لیتے ہیں، لیکن باقاعدہ ٹیکس پریکٹیشنر کو کنسلٹنسی کی 5ہزار روپے فیس نہیں دیتے۔ جب ٹیکس پریکٹیشنر کو کام اور فیس ہی نہیں ملے گی، تو وہ اپنی آمدنی کے لیے کوئی دوسرے طریقے استعمال کرے گا۔ اب ہم نے ٹیکس پریکٹیشنر کی تربیت کے لیے باقاعدہ پروگرامز شروع کیے ہیں۔ نیز،اب تینوں ستونوں ہی کو سوچنا پڑے گا اور ہمیں منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ میں آپ کو ایک غیر ملکی اور مقامی بزنس مین کا فرق بتاتا ہوں۔ جب باہر سے کوئی بزنس مین یہاں آتا ہے، تو ٹرانزیکشنز شروع کرنے سے پہلے ہم سے ساری معلومات لیتا ہے، جب کہ مقامی بزنس مین کاروبار شروع کرنے اور ٹرانزیکشنز کے بعد ہمارے پاس بھاگتا ہوا آتا ہے۔ یعنی ہمارے ملک میں ٹیکس دینے کا کلچر ہی نہیں ہے۔
خالد امین :میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ ابھی تک نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے اور پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان ہی سے مزید ٹیکس جمع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایف بی آر ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، لیکن میری خواہش ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے۔
افسر خان: ٹیکس کا استعمال فائدہ مند کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
مقصود جہانگیر :اس وقت کم و بیش 12ارب ڈالرز ہمارا دفاعی بجٹ ہے۔ دو سے ڈھائی ارب ڈالرز پینشن سمیت دیگر اخراجات پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح تقریباً 22ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتے ہیں، تو ریاست کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پیچھے بچتا کیا ہے۔ اگر ٹیکس افسران کو کیش رسیدوں کی تخمینہ کاری کے اختیارات نہیں دیے جاتے اور غیر روایتی کاروبار کرنے والے افراد اپنی آمدنی ظاہر نہیں کرتے، تو پھر ہمیں شہر کے مختلف کاروباری مراکز کے لیے سلیب سسٹم متعارف کروانا پڑے گا، لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ لوگ ٹیکس دینے سے کترائیں گے، کیوں کہ ہمارے ہاں ٹیکس چوری کی روایت اتنی عام ہو چکی ہے کہ اسے معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اصل مسئلہ ٹیکس چوری ہے، اعتماد کا فقدان نہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حیدر عباس: کیا ٹیچرز اور اسکالرز کو دیا جانے والا ری بیٹ اس بجٹ میں موجود ہے؟
مقصود جہانگیر :بجٹ میں اس ری بیٹ کا تناسب کچھ کم کیا گیا ہے اور ہوا کچھ یوں تھا کہ ٹیکس جمع تو ہو رہا تھا، لیکن ریاست کو نہیں مل رہا تھا۔ اگر کوئی فرد کمپیوٹرائزڈ رسیدوں کے ذریعے اپنی ٹرانزیکشنز کو دستاویز ی بنانا چاہتا ہے، تو ابتدا میں اسے ٹیکس پر چھوٹ دی جائے، لیکن جو فرد ٹیکس چوری کر رہا ہے اور اوپر سے سینہ زوری بھی کر رہا ہے، تو اسے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمیں اس حوالے سے رائے عامہ بھی بنانی چاہیے۔