• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائی پروفائل کی جگہ لوپروفائل کوچ مقرر کیاجائے، بازید خان

مشہور کرکٹ مبصر، پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور ماضی کے عظیم کپتان ماجد خان کے بیٹے بازید خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا مسئلہ مکی آرتھر جیسا ہائی پروفائل کوچ نہیں ہے۔ لوپروفائل کوچ لایا جائے جو پی سی بی اور میڈیا کو جوابدہ ہو اور جسے نوکری جانے کی فکر ہو، جس کا پیٹ بھرا ہوا ہے وہ زیادہ کھائے گا تو بدہضمی ہوجائے گی۔

اولڈ ٹریفورڈ میں جنگ کو خصوصی انٹرویو میں بازید خان نے کہا کہ ٹیم انتظامیہ میں لو پروفائل کوچ ہی پاکستان کرکٹ کی ضرورت ہے۔ پشاور زلمی کے عبدالرحمٰن یا ان کی طرح کے کوچز لائے جائیں۔ لوپروفائل کوچز جوابدہ ہوں گے، نوکریاں جانے سے انہیں فرق پڑے گا۔ بڑے کوچز کو فوری دوسری نوکری مل جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مسائل کا حل لوپروفائل کوچ ہیں۔ غیر معروف کوچ میڈیا کو بھی جوابدہ ہوگا، بورڈ بھی ایسے شخص کو احتساب کے لئے سامنے لائے گا۔

بازید خان نے کہا کہ ورلڈ کپ کے بعد اب مکی آرتھر کو مزید موقع دینا درست نہیں ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مکی آرتھر اگلے سال میں ٹیم کو کھڑا کردے گا تو یہ درست نہیں ہے۔ مکی کے دور میں ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم مشکلات سے دوچار رہی ہے۔ اگلے چار سال کی پلاننگ ورلڈ کپ2023کو سامنے رکھ کر کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا چاہئے کہ نیا کوچ لانے سے کیا وژن تبدیل ہوگا۔ حسن علی، شاداب خان اور فخر زمان نے پاکستان کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جتوائی۔ گذشتہ دو سال سے ان تینوں کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ ایک ٹورنامنٹ کے بعد دوسرے میں ان کی کارکردگی میں مستقل مزاجی آنی چاہئے تھی۔

بازید خان نے مزید کہا کہ ہم ورلڈ کپ میں چیمپئنز ٹرافی سے پہلے کی پوزیشن پر دکھائی دیئے۔ ورلڈ کپ کے بعد ایسی تبدیلی لائے جائے جو ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہو۔ اب تبدیلی ناگزیر ہے۔

واضح رہے کہ بازید خان بڑے کرکٹ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کی تین نسلیں دادا اور والد بھی ٹیسٹ کرکٹر رہے ہیں۔ بازید خان کے دادا ڈاکٹر جہانگیر خان، ماموں جاوید برکی اور چچا عمران خان بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ بہنوئی بابر زمان فرسٹ کلاس کرکٹر رہ چکے ہیں۔

بازید خان نے ورلڈ کپ میں پاکستان کی حکمت عملی کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ چار سال سے ورلڈ کپ کی پلاننگ کا راگ الاپتے رہے۔ ہمیں ٹیم کی کارکردگی اس وقت نظر آئی، جب ٹیم ابتدائی تین میچ ہارگئی۔ بار بار ورلڈ کپ کی پلاننگ کا رونا اور تبدیلی کی باتیں کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اس وقت ہمارا سسٹم ناقابل یقین ہے لیکن مجھے نئے سسٹم پر بھی کچھ تحفظات ہیں۔

کمزور بنیادوں پر کھڑی فرسٹ کلاس کرکٹ کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈپارٹمنٹس نے کھلاڑیوں کو مالی آسائش فراہم کی، لیکن یہ نظام 1947سے کمزور تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم ہر ورلڈ کپ کے بعد سوچتے ہیں کہ تبدیلی آئے گی، لیکن بظاہر اس طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ہم نے چار سال ورلڈ کپ کی تیاری کی اور ورلڈ کپ سے قبل آسٹریلیا،جنوبی افریقا اور انگلینڈ سے ون ڈے سیریز ہار گئے۔ ٹیم کی حکمت عملی کا حال یہ ہے کہ ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز، بھارت اور آسٹریلیا سے ہار کر ہم نے اپنا وننگ کمبی نیشن بنایا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں نچلا  کرکٹ ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کرکٹ کے موجودہ ڈھانچے سے بڑے بڑے کھلاڑی آئے، لیکن اب اس ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں پیسہ لگانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جو مجوزہ ڈھانچہ ہے اس میں ایسا لگ رہا ہے کہ کسی نے ریسرچ نہیں کی ہے۔

مجھے نئے نظام پر کچھ تحفظات ہیں۔ پاکستان کی آبادی کے لئے چھ ٹیمیں کم ہیں۔آسٹریلیا کے لئے چھ ٹیمیں ٹھیک ہیں۔ ہمیں دنیا کے دیگر ٹیسٹ کھیلنے والے ملکوں کے ہم پلہ آنا پڑے گا۔

تازہ ترین