• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب نے مفتاح اسماعیل پر ایک روپے کی کرپشن کا الزام نہیں لگایا

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے سابق جج شاہ خاور نے کہا ہے کہ جھوٹی شہادت اور جعلی دستاویزات پر ملزم کے خلاف فوری کارروائی شروع کی جا سکتی ہے، سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ انتہائی جلدبازی میں درخواست دی گئی،نتیجہ آج نکل آیا،میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ نیب نے ابھی تک مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی پرایک روپے کی بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا ہے، اینگرو کو ایل این جی کا ٹھیکہ دینے میں کوئی بد دیانتی سامنے نہیں آئی، اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اس وقت نیب کے نشانے پر ہیں، ان کے قائدین اور رہنماؤں کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں، گرفتاریاں ہورہی ہیں، ریفرنسز دائر کیے جارہے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کیخلاف نیب کی جعلی ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق الگ سے ٹرائل کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیدی گئی ہے، سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ نیب آرڈیننس کی دفعہ 30 یہ بات کہتی ہے کہ اگر کسی بھی مقدمہ کی سماعت کے دوران جو احتساب عدالت میں ہواہو اور اس میں کسی گواہ نے، کسی ایکسپرٹ نے یا پراسیکیوٹر نے یا کسی نے بھی کوئی جھوٹی شہادت دی ہے یا انہوں نے جعلی دستاویز پیش کی ہے اور وہ ثابت ہوگئی ہے کہ جعلی ہے تو اس مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ کرنے کے بعد فاضل جج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس پر جس ملزم کے خلاف یہ الزام ہے اس کے خلاف فوری کارروائی سرسری سماعت اس کی شروع کرسکتی ہے۔ دوسرا اس میں جو چیزیں ہیں ایک تو جج صاحب خود اپنے طور پر یہ کرسکتے ہیں جیسے ہی انہوں نے مقدمہ اناؤنس کردیا۔ اس کے بعد دوسری آپشن یہ ہے کہ جب اس مقدمہ کے خلاف جو اصل ملزمان ہیں انہوں نے اپیل فائل کی ہو اور اپیل کا فیصلہ ہوگیا ہو تو اس صورت میں یہ دوسری اسٹیج ہے کہ عدالت پھر بھی اپنے طور پر ایسی کارروائی شروع کرسکتی ہے۔ تیسری صورت میں یہ ہے کہ سماعت مکمل ہونے کے تیس دن کے اندر اندر اگر ملزم یہ سمجھتا ہے کہ پراسیکیوشن کی طرف سے ایسی جعلسازی ہوئی یا false evidence آئی ہے یا پراسیکیوشن کی طرف سے ایسی درخواست آتی ہے تو اس کی تیس دن کی میعاد مقرر ہے کہ وہ تیس دن کے اندر اندر کرنی ہے، اس لئے یہ جو درخواست آئی تھی یہ نیب کی طرف سے آئی تھی، پراسیکیوشن کی طرف سے آئی تھی اور وہ یقینی طور پر تیس دن کے اندر اندر نہیں تھی وہ تو بہت hopelessly time bart تھی۔دوسری بات یہ بھی تھی کہ اس وقت یہ جو میاں نواز شریف اور مریم نواز کیخلاف جو فیصلے ہوئے تھے ان کی اپیلیں بھی ابھی تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں پینڈنگ ہیں اور ان کا بھی ابھی فیصلہ نہیں ہوا، معزز جج صاحب نے آج کی جو درخواست خارج کی ہے وہ انہی دو بنیادوں پر کی ہے کہ ایک تو ان کی اپیل ابھی فیصلہ شدہ نہیں ہے اور دوسرا آپ نے اس کو limitations سے beyond داخل کی ہے۔ تیسرا جو آپ نے سوال کیا تھا وہ یہ تھا کہ کیا جج صاحب کو پہلی پیشی پر ہی اس کو خارج کردینا چاہئے تھا تو شاید میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے کیونکہ جب جیسے بھی کوئی درخواست پراسیکیوشن کی طرف سے آتی ہے تو اس میں جس کیخلاف درخواست دی گئی ہو اس کو نوٹس کرنا ضروری ہوتا ہے اور آج بھی یہی ہواکہ آج نوٹس کے پہلے دن ہی جب معزز عدالت اس بات پر مطمئن ہوگئی کہ وہ جو لوازمات ہیں کارروائی کرنے کے وہ پورے نہیں ہورہے تو انہوں نے آج پہلے دن ہی ان کی درخواست خارج کردی۔ سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ پہلے مرحلہ پر تو نیب کودیکھنا چاہئے تھا کہ ہمیں یہ درخواست عدالت میں فائل کرنی چاہئے یا نہیں کرنی چاہئے اور نیب کے قانونی ماہرین کو اس پر غور کرنا چاہئے تھا، دوسرے مرحلہ پر جب عدالت کے سامنے یہ درخواست آئی تھی تو عدالت بھی اس کو دیکھ سکتی تھی کہ یہ درخواست maintainable ہے یا نہیں ہے لیکن اس میں ایسے بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات ججز نوٹس کردیتے ہیں تاکہ دونوں پارٹیوں کو سن کر بھی کسی چیز کا فیصلہ کردیا جائے اور بہتر اسسٹنس حاصل ہوسکے، اگر قانون کو پہلے بھی دیکھ لیا جائے تو وہ بھی جج کی discretion ہے محض نوٹس دیدینے سے کوئی ایسی قباحت نہیں ہوتی اگر عدالت اس کو سن کر فیصلہ کرنا چاہے کسی کو نوٹس دے کر تو وہ بھی کرسکتی ہے۔ اس سے ایک دن پہلے مریم نواز نے پریس کانفرنس کی اور اگلے دن نیب نے یہ درخواست دیدی جو maintainable بھی نہیں تھی، بظاہر بھی نہیں تھی، ایسی جو بھی درخواستیں ہوتی ہیں یہ صرف پراسیکیوٹر نہیں ہوتا جو درخواست لکھ کر دیدیتا ہے عدالت میں جمع کروادیتا ہے، اس کے پیچھے اس کا باقاعدہ ایگزیکٹو بورڈ میں اجلاس میں جس میں ڈائریکٹر جنرل، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل باقی جو متعلقہ انویسٹی گیشن کے لوگ وہ بیٹھتے ہیں، وہ جب تک اس کی منظوری نہیں دیتے تو ایسی درخواست پراسیکیوٹر نہیں لکھ سکتا، میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ جب ایگزیکٹو بورڈ میں اس درخواست کے بارے میں فیصلہ ہوا ہوگا تو کیا اس میں سیکشن \30کے جو لوازمات تھے اس سے کیا قطع نظر ہوگیا تھا یہ ان سے سہواً ایسا ہوگیا تھا، مجھے ایسا نہیں لگ رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ انتہائی جلدبازی میں یہ درخواست دی گئی تھی جس کا نتیجہ آپ کے سامنے آج نکل گیا۔ سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ یہ درخواست ایسی نہیں ہے، کوئی متفرق درخواست نہیں ہے کہ جو پراسیکیوٹر کسی بھی لمحہ کے اوپر لکھ کر عدالت میں دے سکتا ہے، اس کافیصلہ باقاعدہ ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں ہی ہوسکتا ہے اور وہ یقینی طور پر ہمیں ان کا ریکارڈ نہیں پتا لیکن اس میں دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ یہ درخواست ایگزیکٹوبورڈ کی منظوری سے لکھی گئی۔ سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ نیب کا پراسس تو یہ ہے کہ جب کوئی درخواست فائل کی جاتی ہے تو وہ نیچے سے لے کر ہر جگہ ڈسکس کی جاتی ہے، ہر فورم پر اس کا جائزہ لیا جاتا ہے اس کے بعد approval ہوتی ہے، پراسیکیوٹر جنرل اور چیئرمین جب اس کی approval کردیتے ہیں تو اس کے بعد عدالت میں وہ درخواست فائل کی جاتی ہے، اس کے علاوہ ازخود کوئی پراسیکیوٹر ایسا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا، نیب کا پورا میکنزم ہے جسے فالو کرنے کے بعد ہی درخواست فائل ہوتی ہے۔ ایک اور وجہ بھی ہے شاید جس کی وجہ سے یہ درخواست عدالت میں فائل کی گئی ہے، دفعہ 30کے تحت یہ جو درخواست دی گئی ہے کیونکہ آپ اگر دیکھیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جومریم نواز کی ضمانت ہوئی ہے اس فیصلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس وقت کے معزز چیف جسٹس کے بنچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے اس فیصلے میں مریم نواز کے وکلاء نے ایک سوال اٹھایا، انہوں نے عدالت کے سامنے یہ کہا کہ مریم نواز کو جو معزز جج صاحب نے سزا دی ہے وہ سزا سات سال کی اور دو ملین پاؤنڈ جو انہیں جرمانہ کیا گیا ہے وہ سزا غیرقانونی ہے اس لئے کہ مریم نواز صاحبہ کو سیکشن 9A/12کے تحت سزا دینے کا عدالت کو اختیار نہیں تھا بلکہ اگر عدالت اس کو ٹرائل کرنا چاہتی تھی تو اس کا الگ سے سیکشن 30کے تحت ٹرائل ہونا چاہئے تھا کیونکہ جو جعلی ٹرسٹ ڈیڈ ہے اس کا معاملہ جعلی دستاویزات کے معاملہ کے طور پر آتا ہے اور جعلی دستاویزات اگر عدالت کے سامنے پیش کی جائے تو عدالت اگر نوٹس لے سکتی ہے تو وہ at the time of the final judgement لے سکتی ہے، یہی ایک چارج بھی فریم ہوا تھا جو جنوری 2018ء میں معزز عدالت نے بشیر صاحب کی عدالت نے اس چارج کو ختم کردیا اور اس کے خلاف نیب نے ایک رٹ پٹیشن بھی فائل کی ہائیکورٹ میں اور وہ رٹ پٹیشن نیب نے واپس لے لی تاکہ مناسب وقت پر ہم اس کو فائل کریں گے، بہرحال وہ مناسب وقت تو ٹرائل کے دوران تک کا تھا ، وہ ٹرائل جب مکمل ہوگیا اس کے بعد چونکہ اس کیس میں کوئی اپیل بھی فائل نہیں ہوئی تو بہرحال اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے بنیادی پوائنٹ یہ ہے کہ مریم نواز کو سزا دفعہ 30کا اطلاق کر کے دی جانی چاہئے تھی یا 9A/12 کے تحت جو سزا دی گئی ہے سات سال کی جرمانے کے ساتھ وہ ٹھیک دی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جب مریم نواز کی ضمانت کو معطل کیا ہے تو اس میں عدالت کا جو ویو آیا ہے، عدالت نے کہا ہے کہ ابھی ہم اس پر غور کریں گے جب مین اپیل کی سماعت ہوگی اس وقت اس پر غور کیا جائے گا یا رائے دی جائے گی لیکن ابھی tentative view جو عدالت کا ہے وہ یہ ہے کہ دفعہ 30کے تحت اس کی کارروائی اگر احتساب عدالت کرتی تو اس کو دیکھا جائے گا، اب نیب نے اس پوائنٹ کو کور کرنے کے لئے غالباً یہ دفعہ 30کی درخواست عدالت کے سامنے فائل کی لیکن اب یہ ایشو پیدا ہوگیا ہے کہ دفعہ 30کی جو درخواست ابھی فائل کی گئی ہے اس کا ایک سال کا ٹائم گزر گیا ہے، اب ایک سال کا ٹائم گزر جانے کے بعد یہ درخواست تو زیادہ سے زیادہ 30دن کے اندر دی جاسکتی تھی وہ ٹائم گزر گیا اب میعاد کا جو قانون ہے اس کے تحت یہ ٹائم بارٹ ہوچکی ہے، یہ درخواست زائد المیعاد ہے، اب ایک نئی سچویشن ہوسکتی ہے کہ نیب اس کے خلاف اپیل کرے اور آج ان کی جو درخواست ڈس مس ہوئی ہے اور وہ اپیل کر کے ہائیکورٹ میں آئے اس درخواست کے خلاف کہ دفعہ 30کے تحت جج صاحب نے کارروائی نہیں کی، لیکن اگر نیب ایسا کرے گا تو پھر بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوجائے گی کہ ایک طرف تو نیب کا کہنا ہے کہ 9A12 کے تحت اعانت جرم کی جو سزا مریم نواز کو سات سال دی گئی ہے اور ساتھ ان پر جرمانہ بھی کیا گیا ہے وہ ٹھیک ہے۔ دوسری طرف جب نیب یہ کہے گا کہ وہی بنیاد، وہی نکتہ جس پر احتساب عدالت نے سزا دی ہے ٹرسٹ ڈیڈ، اس پر ٹرائل کرنا چاہئے تھا عدالت کو دفعہ 30کے تحت تو یہ موقف متضاد ہوجائے گا اور نیب اپنے موقف سے ہٹ جائے گا اور ایک متضاد موقف اختیار کرے گا اور اس کا فائدہ بالآخر مریم نواز کو ملے گا۔ ابھی بھی صورتحال ایسی ہے کہ آج جو درخواست ڈس مس ہوئی ہے اس پر اگر کوئی بھی پارٹی دونوں فریقین میں سے اس کی attested copy لے کر اور مریم نواز کے وکلاء بھی نیب کے اس موقف کو اگر ہائیکورٹ میں ، اس آرڈر کو آج والے اور ساتھ جو نیب کی طرف سے درخواست فائل کی گئی تھی وہ درخواست اپیلیں جہاں زیرسماعت ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان اپیلوں کے ساتھ اس کو منسلک کرتے ہیں تو عدالت کے سامنے یہ پوائنٹ اٹھاسکتے ہیں کہ دیکھیں ہم جو بات کہہ رہے تھے کہ دفعہ 30کے تحت مریم نواز کا ٹرائل ہونا چاہئے تھا اس پوزیشن کو تو نیب نے یہ درخواست دے کر خود قبول کیا ہے، اگرچہ یہ درخواست زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج ہوچکی ہے لیکن چونکہ ہمارا موقف اور نیب بھی یہی موقف اختیار کررہا ہے، اب یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو اس آرڈر کے آنے کے بعد نیب کو اس کا واحد حل ہائیکورٹ میں جب اپیلوں کی سماعت ہوگی تو اس درخواست کے consequences کا اور اس کے ہونے والے نتائج یہاں رکنے والے نہیں ہیں وہ دوررس ہیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نیب کی حراست میں ہیں مگر وہ پر امید ہیں کے نیب کچھ بھی غلط ثابت نہیں کرسکے گاان کے مطابق اس کیس میں کچھ بھی نہیں ہے اس لئے نہ تو انہوں نے کوئی وکیل کیااور نہ ہی انہوں نے نیب کے ریمانڈ پر اعتراض کیابلکہ انہوں نے خود90 دن کے ریمانڈ کی درخواست کی مگر نیب نے عدالت سے 14 دن کا ریمانڈ مانگا۔شاہد خاقان عباسی پر امید ہیں کے نیب کچھ ثابت نہیں کرسکے گاساتھ ہی آج ایل این جی کیس سے جڑے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت کی درخواست کی کیونکہ چیئرمین نیب ان کی گرفتاری کے بھی وارنٹ جاری کرچکے ہیں اور گزشتہ روز نیب نے مفتاح اسماعیل کے گھرفیکٹری پر چھاپہ مارامفتاح اسماعیل نے عدالت سے درخواست کی کے نیب کے وارنٹ گرفتاری غیر قانونی ہیں اور نیب حکام ہراساں کررہے ہیں عدالت ضمانت دے نیب کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہوں سندھ ہائی کورٹ نے مفتاح اسماعیل کی حفاظتی ضمانت کی درخواست25 جولائی تک منظور کرلی۔ سندھ ہائی کورٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہاکہ نیب نے جب بھی بلایاپیش ہوا ہوں مجھے گزشتہ روز3 بجے کے بعدنوٹس ملا تھامعاملہ عدالت میں ہے یہ بات واضح ہو کے نیب نے ابھی تک مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی پرایک روپے کی بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا ہے معاملہ عدالتوں میں ہے عدالتیں فیصلے کریں گی مگر ہم ایل این جی کے پورے معاملے کاایک جائزہ لیتے ہیں کیوں کہ سنگین الزامات لگائے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ قطر سے معاہدے میں بے ضابطگیاں ہوئیں ایل این جی ٹرمینل لگانے میں بے ضابطگیاں ہوئیں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے مہنگا ریٹ طے کیا گیا ہے پھر کہا گیا کہ ایل این جی ٹرمینل کاٹھیکہ مہنگے داموں دیا گیاحکومت اس کمپنی کو2 لاکھ72 ہزارڈالرمعاوضہ دینے کی پابند ہے چاہے وہ ٹرمینل استعمال کرے یا نہ کرے ان الزامات کا جائزہ لیتے ہیں ہم نے تحقیق کی ہے وہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں جس کے لئے ایل این جی کی ضرورت اور پھرایل این جی معاہدے اورایل این جی ٹرمینل کے سسٹم کاجاننا ضروری ہے ہم نے اس حوالے سے ماہرین سے بھی تفصیل سے بات کی ہے ان لوگوں سے بات کی جو گیس کے شعبے سے وابستہ ہیں اس حوالے سے کچھ حقائق جمع کئے ہیں ایل این جی اگر آپ نے درآمد کرنی ہے تو اس لئے ضروری ہے کے گیس کو مائع شکل میں منتقل کیا جائے گیس بیرون ملک سے بحری جہاز سے آئے گی تو وہ مائع شکل میں ہوگی پھر جب ایل این جی آجائے گی تو پھر اسے دوبارہ سے مائع سے گیس کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اس تبدیلی کے لئے باقاعدہ پلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے جسے آر ایل این جی کہاجاتا ہے ساتھ ہی ایک اسٹوریج کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بحری جہاز سے آنے والی گیس کو اسٹور کرنا ضروری ہوتا ہے ایسا ممکن نہیں ہے کے جب تک مائع سے گیس میں منتقل نہیں ہوگی بحری جہاز وہیں کھڑا رہے گااس لئے اسٹوریج ضروری ہے فلوٹنگ اسٹوریج ری گیسیفکیشن یونٹ کے ذریعے مائع گیس کواسٹور کیا جاتا ہے اس لئے ایل این جی ٹرمینل کے لئے اسٹوریج یونٹ اور ری گیسیفائنگ پلانٹ ضروری ہے یہ تو ہے ایل این جی ٹرمینل کے متعلق معلومات اب بات کریں گے کے پاکستان ایل این جی پر کیوں گیازیادہ پرانی بات نہیں ہے تقریباً8 سال پہلے کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں ملک میں توانائی کا بحران تھاکئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کارخانے بند ہورہے تھے صنعتکار پریشان تھے ساتھ ہی ملک میں گیس کی قلت کی شکایت بھی سامنے آرہی تھی سردیوں میں گھریلو صارفین گیس کی فراہمی یقینی بنائی جاتی تو صنعتوں کو گیس کی فراہمی روک دی جاتی کئی کئی ماہ تک صنعتیں بند رہتیں گیس کے ذخائر کم پڑنے لگے تھے معیشت بیٹھی ہوئی تھی اس لئے حکومت نے گیس کی درآمد پر غور کیاگیس سے بجلی کی پیداوار بھی ممکن ہے سستی بجلی ساتھ ہی مقامی ضرورت بھی پوری ہوتی اور صنعتوں کی ضرورت کوبھی پورا کردیا جاتااس لئے گیس کے ساتھ ساتھ بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے گیس کی درآمد کافیصلہ کیا گیاگیس کی درآمد کے لئے ضروری تھا کہ پاکستان کے پاس ایل این جی ٹرمینل ہوجہاں گیس اسٹور ہواور مائع سے دوبارہ گیس میں منتقل ہوپھر پورے ملک میں اس کو ٹرانسفر کیا جائے اس لئے حکومت نے ایل این جی ٹرمینل کے لئے بڈ کرنے کا اعلان کیااور ٹھیکہ اینگرو کمپنی کو دے دیااب اہم بات یہ ہے کے اس ٹھیکے کے لئے پیپرا رولز کا خیال رکھا گیابلکہ اس ٹھیکے کی نگرانی عالمی ادارے کیو ای ڈی نے خود کی اور اس کمپنی کو نگرانی کا کام حکومت نے نہیں یو ایس ایڈ نے دیااور اس کمپنی کا انتخاب 2012ء میں یعنی ن لیگ کی حکومت آنے سے پہلے ہی کردیا گیااس کمپنی نے بڈنگ کے عمل کی نگرانی کی اور کوئی اعتراض نہیں اٹھایایعنی اینگرو کو ایل این جی کا ٹھیکہ دینے میں کوئی بد دیانتی سامنے نہیں آئی پھر اینگرو کمپنی سے معاہدے کی منظوری سوئی سدرن گیس کمپنی کے بورڈ نے اور اس کے بعد ای سی سی نے دی سوئی سدرن گیس کمپنی کے اس وقت ایم ڈی مفتاح اسماعیل تھے اس لئے نیب ان کے خلاف تحقیقات کررہا ہے وہ بورڈ میں موجود تھے بورڈ میں بہرحال دیگر اراکین بھی تھے اینگرو کوٹھیکہ دینے کے لئے تمام ضرورتوں کا خیال رکھاگیا ملک میں توانائی کا بحران تھا اس لئے حکومت نے اینگرو کو منصوبہ مکمل کرنے کے لئے بہت کم وقت دیااس لئے بھی منصوبے کی مالیت بڑھی کیونکہ تیزی سے کام مکمل کرنا تھااور پہلی دفعہ سیٹ اپ لگایا جارہا تھااسی لئے ایل این جی کے ٹرمینل کے قیام کا کام شروع ہوااب سوال اٹھا کے ایل این جی منگوائی کہاں سے جائے اس سلسلے میں حکومت نے قطر سے رابطہ کیاکیونکہ قطر دنیا میں گیس کا بڑا سپلائر ہے پاکستان نے قطر سے بات چیت کی تو قطر نے پاکستان کو برٹش آئل کی فی یونٹ قیمت کا13.8 فیصد کا ریٹ دیااور معاہدہ15سال کے لئے کیا گیاساتھ ہی حکومت نے دو چھوٹی کمپنیوں سے بھی پانچ پانچ سال کے معاہدے کئے شیل کمپنی نے13.75 فیصد اور دوسری کمپنی نے 13.37 فیصد کا ریٹ دے دیا اس کے بعدپاکستان دوبارہ قطر کے پاس گیا اور اسی روسی کمپنی کے ریٹ کا بتایاجس کے بعد قطر کی روسی کمپنی کے نرخ پرایل این جی دینے کوقطر تیار ہوگیاجس سے پاکستان کوکروڑوں ڈالر کا فائدہ ہوامگر قطر نے معاہدے کو خفیہ رکھنے کی شرط رکھی ایسا حکومتوں میں ہوتا ہے جیسا کے ہم نے آپ کو بتایا کے قطر ایل این جی کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے اس لئے قطر کو ڈر تھادیگر ممالک بھی یہ ریٹ طلب کریں گے اس لئے یہ معاہدہ خفیہ رکھا گیا۔

تازہ ترین