ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے بطور ایڈیشنل آئی جی کراچی تعیناتی کے دوران نامساعد حالات، سیاسی دباؤ اور مرضی کی ٹیم نہ ملنے کے باوجود 11 ماہ تک بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وہ عام پولیس ملازمین کے ساتھ ساتھ کراچی کے عوام کے دلوں میں بھی بطور بہترین پولیس افسر گھر کرنے میں کامیاب رہے۔
اُنہوں نے عوامی حلقوں میں پولیس کی عزت بنانے اور پولیس اور عوام کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اہم اور ذاتی کردار ادا کیا۔
پولیس پر عوام کا اعتماد بحال ہو رہا تھا کہ انہیں اچانک اس سسٹم سے مکھن سے بال کی طرح الگ کر دیا گیا، آج کل کراچی کے حالات اس قدر پرامن ہیں کہ یہ حقیقت بہت پرانی لگتی ہے کہ محض ایک سال قبل تک کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
قومی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر بچوں کے اغوا کی خبریں دل دہلا رہی تھیں، بدامنی اور لاقانونیت کے ملے جلے حالات کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس اور بددِلی پائی جا رہی تھی۔
9 اگست 2018ء کو کراچی پولیس چیف کے عہدے پر تعیناتی کے بعد ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے اپنی حکمتِ عملی کے ذریعے پولیس فورس کا مورال بلند کیا، تھانوں کے اچانک دورے اور پرائیوٹ گاڑی میں عام شہری کے طور پر گھوم پھر کر پولیس کے معاملات چیک کرنا شروع کیے۔
ان اقدامات سے ناصرف پولیس کی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ پولیس ملازمین کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ان کی دہلیز پر پہنچ کر احکامات دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا، چینی قونصل خانے پر حملے سمیت دہشت گردی یا دیگر اِکا دُکا واقعات ہوئے۔
ڈاکٹر امیر شیخ کی قیادت میں پولیس نے بہترین حکمت ِعملی کے ذریعے ملزمان کو ناصرف ہلاک یا گرفتار کیا بلکہ ایسی کئی وارداتیں ناکام بھی بنائیں، اچھی کارکردگی دکھانے والے پولیس ملازمین کو انعامات سے نوازا جانے لگا۔
عوامی مسائل حل کرنے کے لیے پولیس واٹس ایپ سروس شروع کی، جس کے ذریعے سے عام شہریوں کے مسائل حل ہونے لگے۔
امیر شیخ نے شہر کے بے ہنگم ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ٹریفک پولیس کو کئی نئے اقدامات پر لگایا۔
امیر شیخ پہلے ایڈیشنل آئی جی کہلائے جو پولیس ملازمین یا اُن کے بچوں کی خوشیوں میں شریک ہونے لگے، پولیس ملازمین یا ان کے بچوں کی شادی کی درجنوں تقریبات میں شرکت کر کے ڈاکٹر امیر شیخ نے پولیس فورس میں مقبولیت حاصل کی۔
ان اقدامات کی ایک لمبی فہرست ہے تاہم شہر کا عمومی جائزہ لیں یا سی پی ایل سی کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو شہر میں امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہے، بین الاقوامی سطح پر کراچی خطرناک شہروں کی فہرست سے نکل کر پرامن شہروں کے شمار میں قریب ترین نمبروں پر آگیا ہے، امیر شیخ روزِ اول سے پولیس کی بہتری اور عوامی مشکلات کے حل کے لیے محنت کر رہے تھے۔
ایسے بہت سے عوامل ہیں کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی کے عُہدے پر ڈاکٹر امیراحمد شیخ جیسے آفیسر کو مضبوط کیا جانا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس ڈاکٹر امیر شیخ کو اچانک کراچی پولیس چیف کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
ہٹنے والے کو پتہ نہیں کہ انہیں اچانک کیوں بیک جنبش اس نظام سے الگ کر دیا گیا اور احکامات جاری کرنے والوں کو نہیں معلوم کہ ان سے ایسا کیوں کرایا گیا، اس طرح کے تبادلے تو اب ایس ایچ اوز کے بھی نہیں کیے جا رہے اور کافی سوچ بچار کیا جاتا ہے، مگر سندھ حکومت یا سندھ پولیس کی قیادت کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ افسران کو اچانک اِدھر اُدھر کرنے کے وتیرے نے بے یقینی کی فضا بنا رکھی ہے۔
اُنہیں سوچنا چاہیے کہ یہ محض ایک پولیس افسر کا تبادلہ نہیں ہوتا بلکہ بہتری کی جانب بڑھتے ہوئے پورے نظام کو بریک لگایا جاتا ہے۔
سیفٹی کمیشن کے طے کردہ ضابطے میں آئی جی یا ایڈیشنل آئی جی کی تقرری کا دورانیہ کم از کم 3 سال رکھا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر امیر شیخ کو اس عہدے پر کام کرتے ہوئے محض 11 ماہ ہوئے تھے۔
چند ماہ قبل آئی جی سندھ کلیم امام کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے اچانک عدم اعتماد کیا گیا اور انہیں عہدے سے ہٹانے کی مہم زوروں پر چلی مگر وہ ملک کے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے ہمراہ ان دنوں لاہور میں مقیم سابق صدر آصف علی زرداری سے مل کر عہدے پر کام کرنے کا ’حکم امتناعی‘ لے آئے تھے اور اس وقت سے وہ آصف علی زرداری کے ’آدمی‘ کہلا کر نوکری جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ماضی میں آئی جی سندھ کے عُہدے پر اے ڈی خواجہ کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی جانب سے اسی طرح کی درجن بھر سیاسی اور تاریخی چالبازیاں کی جاتی رہیں، اے ڈی خواجہ ایک عرصے تک آئی جی سندھ کے عہدے سے آئے روز ہٹائے جاتے اور عدلیہ کے سہارے عہدے پر واپس آکر کام کرتے رہے۔
ایک اہم بات یہ کہ یہ سب کچھ ملک کے کسی دوسرے صوبے میں نہیں بلکہ صرف سندھ میں ہی ہوتا آ رہا ہے، میرے خیال میں پولیس کے اعلیٰ افسران کی تقرری اور تبادلوں کا معاملہ مذاق یا اس قدر آسان نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ معمولی معاملات پر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر امیر احمد شیخ کو اچانک عہدے سے ہٹانے یا ہٹوانے کا کارنامہ کس نے اور کیوں انجام دیا؟
یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں گھوم رہا ہے مگر کسی کو کچھ پتہ نہیں، میں نے بھی اس بابت بہت سوچ بچار کی، پھر اس تمام سلسلے سے جڑے مختلف کرداروں کو کریدنا شروع کیا تو پولیس قیادت اور پیپلز پارٹی کے بعض حکومتی عہدیداروں کی جانب سے محض ایس ایچ اوز اور اس طرح کے نچلے پولیس ملازمین کی تقرری اور تبادلوں پر ناراضگی جیسے بعض ایسے انتہائی افسوس ناک اور حیرت انگیز حالات و واقعات سامنے آئے کہ ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے ندامت ہو رہی ہے۔
سندھ کے بعض سیاستدان محض اپنے ’کام‘ نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر امیر شیخ سے ناراض ہوئے، پولیس کے حلقوں میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ پولیس ہیڈ آفس میں موجود دو تین بڑے پولیس افسران جو آئی جی سندھ کے پورے نظام کو چلانے والے ’کردار‘ بتائے جاتے ہیں اُنہوں نے بھی اپنی مرضی کی تقرریوں اور تبادلوں کے احکامات بجا نہ لانے پر آئی جی سندھ سید کلیم امام، دو تین صوبائی وزراء اور پھر ان کے توسط سے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو امیر شیخ کے انتہائی خلاف کیا کہ وہ کراچی پولیس چیف کے عہدے کے لیے امیر شیخ کے مدِمقابل پولیس افسر کو برطانیہ سے امپورٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔
مجھے حیرانگی ہے کہ اس قدر بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر بیٹھے سیاسی رہنماء اور بیشتر اعلیٰ پولیس افسران کیا اتنی چھوٹی ذاتی مفادات کی سوچ اور کردار کے مالک بھی ہو سکتے ہیں؟ کہ جو اجتماعی اچھائیوں، شہر کے امن، ملک و قوم کی ترقی اور مفاد عامہ پر اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔
ڈاکٹر امیر شیخ کو ہٹانے کے فیصلے سے ہر عہدے کے پولیس ملازمین ناخوش ہیں، افسران اور اہلکاروں کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے، ایسا کب تک ہوتا رہے گا، اس سلسلے میں واضح ہونا چاہیے۔
اب آئی جی سندھ کے عہدے کے لیے یہ داؤ پیچ نہیں آزمانے چاہئیں، سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اور دیگر متعلقین سے صلح مشورے سے اچھی شہرت کے حامل غلام نبی میمن پر اعتماد کیا ہے تو اُنہیں اب طے شدہ عرصے تک کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔