• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبیب احمد

کراچی کے ضلع وسطی میں بنارس کی ’’خاصا ہلز‘‘ کے ساتھ تقریباً 8کلو میٹرطویل سڑک، شارع نورجہاں کے نام سے معروف ہے ،جس کا آغاز پاپوش نگرکے قبرستان کے سامنے، چورنگی کی دوسری جانب سے ہوتا ہے اور یہ شمال میں نصرت بھٹو کالونی سے ہو تی ہوئی انڈا موڑ پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس کے دونوں جانب وسیع و عریض بنگلوں کی قطاریں ہیں۔اس کے بعد سخی حسن کا قبرستان اور اس کے اختتام پرانڈا موڑ تک دونوں اطراف چھوٹے مکانات بنے ہوئے ہیں۔528میٹر بلند پہاڑی کے دامن میں اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کے دفتر سے پہاڑ گنج کی چورنگی تک حسین ڈی سلوا ٹاؤن کے نام سے450 خوب صورت کاٹجز پر مشتمل متوسط افراد کی رہائش کے لیےاس بستی کو کراچی کےدو ممتاز ماہرین تعمیرات اشفاق آر حسین اور جیرم ڈی سلوا نے 50کے عشرے میں تعمیر کرایا تھا۔ اس سےقبل، منگھوپیر کی سیمنٹ فیکٹریوں میں پہاڑی پتھروں کی ترسیل کرنے والےکوہستانی محنت کشوں نے پہاڑکے اوپر،چٹانوں کوغار کی صورت میں کاٹ کر اپنی رہائش گاہیں بنالی تھیں۔ 1960میں جب علاقے کی آبادی میں اضافہ ہونے لگااور سڑک کی دونوں جانب مکانات بننے لگے توذرائع آمدورفت کے لیے ٹرانسپورٹ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ڈی سلوا ٹاؤن کی تعمیر کے بعد پاپوش نگر کی جانب سے یہاں تک ایک کچی سڑک آتی تھی، اس کی جگہ شپ اونرز کالج تک پختہ سڑک تعمیر کی گئی ،جس کے بعد اس پر بسیں چلنے لگیں۔ سڑک مکمل ہونے کے بعد علاقے کی مناسبت سےاس کا نام ڈی سلوا ٹاؤن روڈرکھا گیا۔ پہاڑیوں کے نشیب میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے روزگار کے سلسلے میں آنے والے غریب لوگوں نے پہاڑ گنج کے نام سےکچے مکانات اور جھونپڑیوں پر مشتمل بستی آباد کر لی، جس میں عیسائیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان کی عبادت کے لیے’’سینٹ جوڈز ‘‘کے نام سے ایک گرجا گھر بنایا گیا اور بعد میں اس میں ایک نجی اسکول قائم کردیا گیا، جہاں ڈی سلوا ٹاؤن کے رہائشی بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

1970کے عشرے میں اس علاقے کا پھیلاؤ سخی حسن قبرستان تک ہوگیا، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بلاک’’ ٹی‘‘ کے عقب میںنصرت بھٹو کالو نی کے نام سےمحنت کشوں کے لیے بستی کا قیام عمل میں آیا، جس کی حدود بعد میں منگھوپیر روڈ تک پھیل گئی۔ اس دور میں ڈی سلوا ٹاؤن کے بنگلوں میں رہنے والو ں کے پاس اکا دکا کاریں ہوتی تھیں،جب کہ’’ موپڈٹائپ ‘‘ کی انجن والی سائیکل اور’’ ٹرمف ٹائیگر ‘‘جیسی ہیوی موٹرسائیکلیں اور اسکوٹر بھی بہت کم نظر آتے تھے،زیادہ تر لوگ بسوں یا امراء ٹیکسی میں سفر کرتے تھے۔ 70کے عشرے میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت ، یوتھ سینٹر، اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کی عمارتیں تعمیر کی گئیں ۔1980-90کے دوران علاقے کی وسعت بڑھنے کے بعد شاہراہ پر ٹریفک کی روانی میں بھی اضافہ ہونے لگا ۔80کے عشرے میں جب علاقوں اور سڑکوں کا نام قومی اکابرین سے موسوم کیا جارہا تھا تو کراچی کی شہری انتظامیہ کی طرف سے اس خوب صورت شاہراہ ڈی سلوا ٹاؤن روڈکا نام بھی تبدیل کرکے ہندوستان کی ملکہ نورجہاں کے نام سے موسوم کر کےشاہراہ نورجہاں رکھ دیا گیا۔ اونچے نیچے راستوں اور پہاڑی بلندیوں کے ساتھ، بل کھاتی اس سڑک پر سفر کرنے میں بہت لطف آتا تھا۔ سیاہ سلفیٹ کی سڑک میلوں تک صاف و شفاف اور چمک دار نظر آتی تھی، گاڑیاں اس پر گویا تیرتی ہوئی چلتی تھیں، اطراف میں پہاڑیاں اور ان پر زینہ بہ زینہ کچے پکے مکانات انتہائی بھلے لگتے تھے جب کہ سڑک کے ساتھ چوڑے فٹ پاتھوں پر درخت لگائے گئے تھے ۔

شاہراہ نورجہاں پر 1993میں، پہاڑ گنج کی چورنگی کے ساتھ کراچی کا دوسرا بڑا،جدید طرز کا اسپورٹس اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے سابق جسٹس ، اصغر علی شاہ کے نام سے موسوم اس اسٹیڈیم میں ملکی و بین الاقوامی سطح کے میچوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس گراؤنڈ میں انڈر17 ایشیاء کپ اور انڈر 19ٹورنامنٹس کے علاوہ خواتین کے کرکٹ مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاچکا ہے۔ اس کے بالکل سامنے کسی زمانے میں ایک وسیع و عریض پارک تھا، جس پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرکے مکانات تعمیر کرلیے ہیں۔ چورنگی سےنصف کلومیٹر کی دوری پر ایک سڑک پہاڑ کو کاٹ کر بنائی گئی ہے، جس کا اختتام منگھوپیر روڈ پر ہوتا ہے، اس راستے سے نارتھ ناظم آباد اور قصبہ و اورنگی کی آبادی کو باہم مربوط کیا گیا ہے۔ بلندیوں کی جانب جانے والی یہ انتہائی خوب صورت سڑک ہے اس پرسفر کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بالائی علاقے کی کسی پہاڑی راستے پر محو سفر ہیں۔سڑک کے نشیب میں شاہراہ نورجہاں تھانہ ہے، جس سے ذرا سا آگے شپ اونرز چورنگی پرفائیو اسٹارچورنگی کی جانب جانے والی سڑک کے آغاز میں، دونوں اطراف پارک اور پلے گراؤنڈ بنائے گئے تھے، جو چائنا کٹنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ نصرت بھٹو کالونی کے چوراہے کو سخی حسن قبرستان کے ساتھ واقع ایک مزار کی مناسبت سے قلندریہ چوک کا نام دیا گیا ہے، اس کے ساتھ کئی ایکڑ رقبے ایک خوب صورت پارک تعمیر کیا گیا تھا، جس میں نہایت خوب صورت جھیل، پلے لینڈ ،گرین ایریا، سایہ دار درخت وتفریح کے لیے آنے والی فیملیز کے بیٹھنے کے لیے شیلٹر ز بنا کر ان میں بنچیں لگائی گئی تھیں۔ اس پارک میں نار تھ کراچی تک سے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ تفریح کی غرضٗ سے آیا کرتے تھے۔ اب یہ جھیل آلودگی کا شکار ہے اورپارک کا حسن اجڑگیا ہے۔

شپ اونرز کالج، کے بعد پہاڑ گنج کی چورنگی اور اس سے آگے ڈی سلوا ٹاؤن کےصاف ستھرے بنگلوں اور گلیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ذہن پر نہایت خوش گوار اثرات مرتب ہوتے تھے۔ آج صوررت حال اس کے برعکس ہے۔اس سڑک پر رات گئے تک ٹریفک کا ہجوم رہتا ہے۔یوتھ سینٹر کے بعد آٹھ کلومیٹر طویل سڑک پر ہر سو گز کے فاصلےپر گہرے گڑھے ہیں، اب ماضی کی خوبصورت سڑک ڈی سلوا ٹاؤن کے اندر جانے والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اوربنگلوں کے اطراف سیوریج کے پانی اور کیچڑ کی وجہ سے غلاظت پھیلی نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے اس علاقے کی اندرونی سڑکوں پر پیدل چلنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ سیوریج لائنوں کے مخدوش ہونے کی وجہ سے گٹر کا پانی نالے میں جانے کی بجائے سڑکوں پر جمع رہتا ہے۔پہاڑ گنج سے گزرنا محال ہوتا ہے ،چورنگی کے وسط میں موٹر ورک شاپس ہیں ، ان کے ساتھ ہی گہرے گڑھے اور کھلا ہوا نالا ہے ،جہاں ذرا سی لاپروائی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔کے ڈی اے چورنگی کی جانب جانے والی سڑک پر اسٹیڈیم کی دیوار کے ساتھ بنے کچرے کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔

شاہراہ نورجہاں پر کٹی پہاڑی اور نصرت بھٹو کالونی کی جانب سفر کرتےہوئے نالے کی دیوار کے ساتھ بھی جگہ جگہ کوڑا کرکٹ کے انبار نظر آتے ہیں، دوسری جانب سڑک کا یہ عالم ہے کہ جا بجا گڑھوں اور اسٹریٹ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار اکثر و بیشتر حادثات کا شکار ہوتےہیں۔ اب اس سڑک پر سفرپر لطف کے بجائے سوہانِ روح ہو گیا ہے۔ ہچکولے کھاتے ہوئے مسافر بیس منٹ کا سفر پون گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔ پہاڑی کے ساتھ واقع گلیوں میں جب سیوریج کا پانی جمع رہتا ہے، جس کی وجہ سے گہرے گڑھے زیر آب ہونے کی وجہ سے نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں اور کار اور موٹر سائیکل سوار ان میں گرجاتے ہیں۔ اس صورت حال کا سامنا قلندیہ چوک تک ہے۔ شاہراہ نورجہاں پر مسافروں کو امن و امان کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے۔ تھانے کی موجودگی کے باوجود پوری شاہراہ پر مسلح ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں، جو بے خوف و خطر مسافروں کو نقدی اور قیمتی اشیاء سے محروم کردیتے ہیں۔شارع یا شاہراہ نورجہاں کو 2014میں ازسر نو تعمیر کیا گیا، لیکن چند ماہ بعد ہی دوبارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد 2017تک چار مرتبہ اس کی اس کی پیوند و استرکاری کی گئی لیکن ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے چند مہینوں میں ہی اپنی سابقہ حالت میں آجاتی ہے۔

تازہ ترین