جنرل پرویز مشرف کا ہوّا، ہَوا ہوا۔ اور بیچارے سویلین ہاتھ ملتے رہ گئے۔ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ جمہوریت اور آئینی حکمرانی پہ یہ بپتا تو کئی بار بیتی۔ اب کی بار عدلیہ اور سول انتظامیہ خم ٹھونک کر میدان میں اُترے تو تھے مگر دم کہاں سے لاتے جو کبھی اُن کے پاس تھا ہی نہیں۔ دم والوں نے اپنے سابق چیف کو انصاف کی عدالت میں پیش ہونے کی ہزیمت بھی گوارا نہ کی۔ تمام مقدمات ملزم کی عدم موجودگی میں اپنی بے بسی پر ماتم کناں۔ ایمرجنسی کے لاقانونی نفاذ کے مقدمے میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عظمیٰ بی بی کی ضرورت تھی کہ وہ اپنے استحقاق کا ڈنکا بجاتی اور یہ جنرل مشرف کو آئین سے مبینہ غداری کا مرتکب قرار دیئے بغیر ممکن نہ تھا۔ جب مشرف کے وکلا نے پورے نظام کے کارکرتائوں کو لپیٹنے کی کوشش کی تو پھر محترمہ عالیہ میدان میں اُتریں اور فقط جنرل مشرف غداری کے مبینہ ملزم ٹھہرے۔ اکبر بگٹی کیس میں وہ پہلے ہی بری الذمہ قرار دیئے جا چکے تھے اور غازی عبدالرشید کے معاملہ میں کچہری لگانے والے ویسے ہی کھمبا نوچتے رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ خصوصی عدالت لگتی اور ملزم مشرف طلب کیے جاتے، سپریم کورٹ نے باہر جانے پر بندش کی گیند پھر سے حکومت کی کورٹ میں پھینک دی۔ منظر کم ہیجانی نہ تھا۔ حکومت عدلیہ کی آڑ لینا چاہتی تھی اور عدلیہ اپنا دامن بچانا۔ ہر دو متاثرین بوجھ اُٹھانے کو تیار نہ تھے تو شکنجہ کس نے کسنا تھا۔ اس ڈر سے بھی کہ کہیں سویلین ہی کا شکنجہ نہ کسا جائے۔ پھر اُترے میدان میں کروفر سے ہمارے وزیرِ داخلہ یہ کہنے کو کہ اعلیٰ منشا کا تقاضا ہے کہ اپنی ہی ناک نیچے کر لی جائے۔ ایسی کھلی مضحکہ انگیز بھت کبھی جمہوریہ کی ہوئی تھی؟
قانون کی حکمرانی اور جمہوریہ کی فتح مندی کے لئے مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے یا پھر سیاسی مصلحت کوشی سے کمبل سے جان چھڑائی جائے، یہ ایسا خوفناک مخمصہ تھا کہ منتخب حکومت کی داخلی کمزوری آئینی فریضہ نبھانے سے قاصر رہی۔ اور ’’عقلمندوں‘‘ کا اشارہ تھا کہ بس آنکھیں بند کرو کہ بلا ٹل جائے، بھلے ہزیمت ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔ اور ہزیمت حادثاتی لیڈرز کا برسہا برس سے اوڑھنا بچھونا رہی تو اس سے عار کیوں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی کا پھندا چومنے کی ہمت یا پھر بے نظیر بھٹو کی طرح میدان میں اُتر کر گولی کھانے کی جرأت کہاں! تاریخ تو ایسے ہی بنتی ہے، فقط شیر کی کھال پہننے یا پھر چوہدری نثار صاحب کی طرح شکست پر نادم ہوئے بغیر غرانے سے نہیں۔ لاہور میں مَیں نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے اُن کی شہادت سے تین روز قبل پوچھا تھا کہ اس بار اگر آپ حکومت بنا پائیں تو کیا پھر اُسی پرانی تنخواہ پر کام کریں گی تو اُن کا اٹل جواب تھا کہ ہرگز نہیں اور ایسی مجہول حکومت کو لات مار کے باہر آ جائوں گی۔ مجھ سمیت بہت سے صحافی دوستوں نے اُنھیں دہشت گردی کے ممکنہ خدشات کے پیشِ نظر راولپنڈی کے جلسے میں جانے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔ اُن کا جواب تھا عوام ہی میری طاقت ہیں جن کے بل پر آمریت کے قلعے کو ڈھایا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بی بی کے جانشینوں نے اُن کے تہذیبوں کے مابین مصالحت کے نظریہ کو ہر طاغوتی قوت سے مصالحت میں بدل دیا۔ پھر بھی جب صدر زرداری کو میموگیٹ ا سکینڈل میں گھسیٹا جا رہا تھا تو وہ صدارتی محل میں مورچہ بند ہو گئے تھے۔ غالباً پنجاب کے شیروں نے وہی راہ اپنائی جو اُن کی پرانی روایت تھی۔ دانت دکھائو، کام نہ بنے تو کھسیانی بتیسی نکال کر جان بچائو۔ یقینا سیاست میں سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں جو پھر سے طاقت پکڑ کر پرانے اُدھار چکانے کا باعث بنیں۔ ایسے سمجھوتے نہیں جو جس شاخ پہ جمہوری آشیانہ بسا ہو اُسی کو کاٹنے کا باعث بنیں۔ بھٹو صاحب نے شملہ سمجھوتہ کیا، فوجی چھڑوائے اور زمین بازگزار کروائی اور لگ پڑے نیوکلیئر ہتھیار بنانے۔ ہمارے شیر تو فقط دودھ پینے والے مجنوں ہیں اور پسپائی ہی اُن کا مرغوب مقدر۔ جمہوریت، عوامی طاقت سے آئینی حکمرانی کا نام ہے۔ آئینی حکمرانی ہی نہ رہے تو پھر فوجی حکمرانی پہ اعتراض کیسا۔ آئین و قانون کی حاکمیت کا تماشہ بنا کر جس دھج سے مشرف روانہ ہوئے، بیچاری جمہوریہ کا بھرم تمام ہوا۔ پچھلی سے پچھلی بار جب ہمارے شیر عدلیہ پہ حملہ آور ہوئے تھے تو مَیں نے لکھا ’’جمہوریت کی موت‘‘۔ اب کی بار جس طرح ہتھیار ڈالے گئے، اس کا تمسخر اُڑانے کی کوئی جمہوریت پسند ہمت کہاں سے لائے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام نہ ہوں گے تو بندوق کی نالی سے ہی طاقت پھوٹے گی۔ سیاسی جماعتوں کی ناطاقتی، عوامی قوت سے بیزاری میں ہے۔ جب سیاسی جماعتیں ہی عوام سے کٹ جائیں اور خوشامدیوں اور بھانڈوں کا دربار بن جائیں اور پیسہ ہی منتہائے مقصود ہو جائے تو عوام ایسی حکمرانی پہ لعنت نہ بھیجیں تو کیا کریں جس سے اُنھیں کچھ حاصل نہیں۔ سیاسی رہنمائوں کا آمرانہ طرزِ عمل اور گندی حکمرانی ہی ملنی ہے تو بیچاری جمہوریت اپنی عصمت بچانے کہاں سر چھپائے۔
مضحکہ خیز ٹریجڈی ہے جو دہرائے چلی جاتی ہے۔ طویل مارشل لائوں کی تاریک راتوں میں جمہوری ستارے جگمگائے اور اپنے ہی پیغام پہ فدا ہو گئے۔ پارٹیاں گھڑی اور لیڈر بنائے جاتے رہے جو جمہوریہ کے لائق نہ تھے۔ جو ذہین و فطین اور محنتی لوگ تھے وہ کیوں سیاست کے غیریقینی کاروبار میں کودتے۔ جو جمہوری جدوجہد سے کندن بن کر نکلے دھتکار دیئے گئے اور سیاست کی دُکان پر بکائو مال بھائو تائو لگوانے آن بیٹھے۔ کوئی مقصد رہا نہ مشن اور نہ عوام کے دُکھوں کے مداوے کا کوئی جتن۔ بس ایک ہی طرح کے لوگ میدان میں ہیں جنھیں قانون کی حکمرانی کی پروا ہے نہ عوام کے کسی کام آنے کا آدرش۔ ’’سب بُرے میں اچھا‘‘ کی گردان میں ہر طرف قصاب ہاتھوں میں چھرے پکڑے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا تماشہ لگائے ہیں، تو جمہوریہ کو بچانے کون آئے، جس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں۔
جی ہاں! اداراتی عدم توازن ہے جس کے باعث آئین کی دفعہ چھ کیا کرے گی اور جب اسے لاگو کرنے کی کوشش میں آپ منہ کے بل گر پڑیں تو اس تکلف کی کیا ضرورت۔ بگاڑ فقط سویلین ناطاقتی کا نہیں، حد سے بڑھی طاقت کی زور آوری کا بھی ہے جو سویلین بیچارگی کو برقرار رکھتی ہے۔ علت و معلوم بدلتے رہتے ہیں، فقط سویلین کو کوسنے یا پھر خاکیوں سے گلہ کرنے سے کیا حاصل۔
جنرل مشرف کے مقدمے کا مقصد کسی ایک غاصب کو جسمانی سزا دینا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بلکہ احتساب علامتی اور اصولی بھی ہو سکتا تھا۔ اگر مقصد ایک لائن کھینچنے کا ہوتا تو اسے تاریخی تناظر میں رکھ کر پرکھا جا سکتا تھا۔ ایک ایسا کمیشن بنا کر جو تمام غاصبوں اور مظلوموں کا حساب چُکتا کرتا اور تاریخ سے سبق لے کر سبھی اداروں کے لئے حدود و قیود کا از سرِ نو تعین کرتا۔ جمہوریت پسندی کی حالت تو اتنی پتلی ہے کہ ابھی تک آئینِ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا غیرآئینی سرقہ ہنوز منہ چڑائے دکھائی پڑتا ہے۔ ماضی کے دوسرے فوجی آمروں کے مقابلے میں جنرل مشرف نے جیسے کیسے جمہوریت کی واپسی کے لئے کھڑکی کھولی اور صدارتی محل سے روانہ ہو گئے۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا کمال ہی تھا کہ اُنھوں نے ایک ایسا سمجھوتہ کیا کہ جنرل مشرف وردی اُتارنے پر راضی ہو گئے اور پھر محترمہ نے واپس آ کر اور میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کر کے سمجھوتے سے جان خلاصی تو کی، لیکن بدلے میں اپنی جان گنوا بیٹھیں۔ اور یار لوگ تھے کہ آج تک NRO کی طعنہ زنی سے باز نہیں آتے۔ جنرل مشرف کی چھچھوندر تو اُگلی گئی، اب اُسے اُن کی واپسی کی اُمید سے نگلنے کی خواہش کرنے والے کیا پھر سے بدترین مخمصے کا شکار ہونا چاہتے ہیں۔ حماقت اور وہ بھی پوچھ پوچھ! جنرل مشرف کا ہوّا، ہَوا ہوا، اُسے پھر سے بلانے کی آرزو کیوں؟