• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا کالم ان تین تصویروں کی نذر ہے جو مجھے امریکہ سے ایک ذہین قاری نے بھجوائی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ماضی حال سے یادوں کے ذریعے جڑا ہوتا ہے اس لئے کچھ تصویریں تاریخی واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔ تصویروں کا ذکر کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ مہنگائی، افلاس، لوڈشیڈنگ، ٹیکسوں کی بھرمار اور بیروزگاری کی ماری قوم کے لئے عمران خان کی امریکہ یاترا تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ایک وہ وقت تھا کہ ایک امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستان کو نصف سر کا درد(مائیگرین) کہا تو دوسری سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستان کو دردِ سر کا خطاب دیا۔ صدر ٹرمپ کے ایک پیشرو نے پاکستان کو ناقابلِ اعتماد ملک کہا تھا۔ خود صدر ٹرمپ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان پہ خوب گرجتے برستے اور طعنوں کی بارش کرتے رہے، کچھ عرصہ قبل میں ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ہم پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں پہ بھروسہ نہیں کر سکتے کیونکہ متعدد بار ہم نے ان سے راز شیئر کئے اور ہر بار یہ راز طالبان تک پہنچ گئے۔ تفصیل تکلیف دہ بھی ہے اور دردناک بھی کہ یہ سب کچھ اس ملک کے بارے میں کہا جا رہا تھا جس نے دہشت گردی کی جنگ میں ستر ہزار سے زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان کا دورۂ امریکہ پاکستانیوں کے لئے ہوا کا تازہ جھونکا ہے کہ صدر ٹرمپ جیسے اکھڑ مزاج اور منہ پھٹ صدر نے نہ صرف پاکستانی قوم، پاکستانی وزیراعظم بلکہ پاکستان کے کردار کی بھی دل کھول کر تعریف کی ہے بلکہ یہ تعریف دنیا کے کونے کونے میں سنی گئی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قوموں کے رشتے مفادات اور ضرورتوں کے تابع ہوتے ہیں لیکن ان مفادات کی خدمت کے باوجود ماضی میں امریکی حکومت اور بااثر حلقے پاکستان کو مطعون کرتے رہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو خوب نقصان پہنچاتے رہے۔ تہہ میں اتریں تو مسئلہ اعتماد کے بحران کا تھا جو موجودہ حکومت نے اپنے رویے سے حل کر دیا اور اعتماد بحال ہو گیا۔ صدر ٹرمپ کے تعریفی کلمات اسی اعتماد کی بحالی کا نتیجہ ہیں۔ امریکی صدر کی گرمجوشی، عمران خان کا انسٹیٹیوٹ آف پیس میں خطاب اور پریس کانفرنس، مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا اور دو طرفہ تجارت میں اضافے کا عندیہ دینا سب اچھے شگون ہیں۔ امریکی صدر سے ملاقات سے پہلے واشنگٹن میں پاکستانیوں کے پُرجوش جلسے سے خطاب کے گہرے اثرات ہر سو محسوس کئے گئے اور صدر ٹرمپ بھی عمران خان کو نہایت مقبول اور پاپولر لیڈر کہنے پر مجبور ہوئے، البتہ اس جلسے میں اس طرح کا اعلان کہ میں واپس جاکر میاں نواز شریف سے ایئر کنڈیشنر واپس لے لوں گا، غیر مناسب تھا۔


ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ پاکستانی عوام کے لئے ہوا کا تازہ جھونکا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہوا کا تازہ جھونکا دو تین روز خوشگوار اثرات مرتب کر کے رخصت ہو جاتا ہے اور پھر عوام کو حالات کی سختی اور زندگی کی تلخیاں بدمزہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی بدحالی ہے جو روز افزوں مہنگائی کی صورت میں عوام کی گردن کا پھندا بن چکی ہے۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر کامیابیاں داخلی استحکام اور معاشی خوشحالی کا نعم البدل نہیں ہوتیں۔ حکمران اپنے دس ماہ کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ کسی بھی شعبے میں ذرا بھی بہتری نمودار نہیں ہوئی۔ صوبائی حکومت کی گورننس بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ صحت، تعلیم، پولیس، انصاف، کرپشن، امن عامہ، قانون کی حکمرانی حتیٰ کہ بے ہنگم اور قانون کو پامال کرتی ٹریفک میں بھی ذرا بہتری نہیں ہوئی حالانکہ اس کے لئے مالی وسائل کی ضرورت نہیں۔ پنجاب حکومت قانون کی حکمرانی کے بجائے ممبران اسمبلی کی اسیر ہے جو ہر وقت افسران کی تعیناتی اور تبادلوں میں مصروف رہتے ہیں۔ پنجاب میں دس ماہ کی حکمرانی کے دوران 9سیکرٹری ہائر ایجوکیشن تبدیل ہو چکے ہیں۔ محکمے کا بیڑا غرق کیوں نہ ہو۔ ضلعی انتظامیہ کو بھی ہمہ وقت تبادلے کا خطرہ کام کرنے نہیں دیتا۔ اس طرح انتظامیہ نہ عوامی مسائل کی جانب توجہ دے سکتی ہے اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں، گورننس مذاق بن چکی ہے۔ ان حالات میں صدر ٹرمپ کی تعریف کے خوشگوار جھونکے کا اثر دو تین دنوں میں ہی ختم ہو جائے گا، جس تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا دور دور تک اس کے آثار نظر نہیں آتے۔ چہروں کی تبدیلی عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتی۔


بات چلی تھی تین تصویروں کے حوالے سے اور پھر زلفِ یار کی مانند دراز ہوگئی۔ ایک قاری نے امریکہ سے تین تصویریں بھیجی ہیں جنہیں آپ بولتی تصویریں کہہ سکتے ہیں۔ ایک تصویر کسی رسالے کی ٹائٹل کی ہے جس پر لکھا ہے فوٹو آف دی ویک(Photo of the week)۔ ٹائٹل پر عمران خان کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کی اہلیہ نہایت خوشگوار موڈ میں مسکراتی نظر آ رہی ہیں۔ دوسری تصویر میں بیگم اور صدر ٹرمپ کھڑے ہیں اور درمیان میں عمران خان ہیں، یادش بخیر، قائداعظم وائسرائے مائونٹ بیٹن سے ملنے گئے تو ملاقات کے بعد تصویر اتاری گئی۔ ایک طرف مائونٹ بیٹن دوسری طرف بیگم مائونٹ بیٹن درمیان میں قائداعظم۔ قائداعظم نے مسکرا کر کہا(Rose between the thorns) یعنی کانٹوں کے درمیان پھول۔ ہندو پریس نے سر آسمان پہ اٹھا لیا کہ قائداعظم نے محاورہ غلط بولا ہے۔ قائداعظم نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کہا ہوگا۔ مجھے بیگم ٹرمپ عمران خان اور صدر ٹرمپ کی تصویر دیکھ کر یہ واقعہ یاد آگیا تھا، اگرچہ اس تصویر میں تینوں چہرے کھلے ہوئے ہیں، لیکن بیگم ٹرمپ کی خوشی دیدنی ہے۔ تسلی رکھیں دورہ بہت کامیاب رہا۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین