• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ذرائع کے مطابق پاکستان کی معیشت کی حالت خراب ہے۔ گزشتہ گیارہ ماہ میں جس قدر مہنگائی ہوئی ہے گزشتہ گیارہ سال میں ایسی مہنگائی نہ دیکھی نہ سنی۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ حکومت نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیا ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ مہنگائی کے اس سیلاب میں حکمراں خود بھی بہہ سکتے ہیں۔ یہ امر قابل حیرت ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پیٹرولیم اور اسکی مصنوعات کی قیمتوں میں 5بار اضافہ کیا ہے۔جس انداز سے مہنگائی کی لہر آئی ہے اسے محض طلب و رسد میں عدم توازن یا کمی بیشی کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا، بیک وقت مختلف اشیائے ضرورت کا بازار سے غائب ہو جانا اور پھر چند روز بعد نمودار ہونا تو پانچ چھ گنا زیادہ نرخوں پر اور پھر ایسی اشیا کی قیمتوں میں یک لخت اضافہ ہو جانے کو کس کھاتے میں ڈالا جائے جن کا نہ تو خام مال کا پرابلم یا مسئلہ ہے اور نہ ہی طلب و رسد کا بہانا کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ مہنگائی محض معاشی مسئلہ ہے کہ یہ معاشی عمل سے متعلق ہے اسلئے اسکا حل بھی معاشی ہونا چاہئے، درست نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت، افسر لوگ اور ’’ایکسپرٹ‘‘ یہی کہتے ہیں۔ کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ آدم اسمتھ کے زمانے کے اقتصادی اصول اور ضابطے آج کی صورت حال پر لاگو نہیں ہوتے۔ اجارہ دارانہ نظام حکومت میں مہنگائی اجارہ دار طبقے کا بہت بڑا ہتھیار ہوتی ہے۔ اسلئے مہنگائی حکومت وقت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہوتی ہے لہٰذااب مہنگائی صرف معاشی مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بن گئی ہےتو اس کے ساتھ سیاسی طریقے سے عہدہ برآ ہونا چاہئے اس معاملے میں کلی طورپر حکومتی مشینری پر انحصار نہیں کیا جاسکتا اس کے ساتھ ساتھ عوام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اجارہ دار طبقوں کے وار کو منظم طریقے سے ہی ناکام بنایاجاسکتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں آجکل ہر شخص کے احساس کا محور مہنگائی ہے ہر طبقے کا فرد مہنگائی پر اظہار خیال کرتا نظر آتا ہے، یہ درست ہے کہ نچلا اور متوسط طبقہ اس مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آچکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مہنگائی کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہم کہتے ہیں کہ مہنگائی کے بیسیوں سبب اپنی جگہ درست ہیں لیکن بنیادی معاملہ یہ ہے کہ جب تک ذریعہ پیداوار پر نجی ملکیت کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک مہنگائی کو روکنے کا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہوسکتا۔ مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے پیداوار میں اضافے پر بھی زور دیا جاتا ہے لیکن نجی ملکیت کے تحت پیداوار میں منافع اندوزی روکنا ناممکن ہے اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر پیداوار بھی طلب سے زیادہ ہوجائے تب بھی مہنگائی میں اتنی کمی نہیں آئے گی جس کی عام شہری توقع رکھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ہماری قومی آمدنی چھ فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کی بنیادی سہولتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ملک کی 48فیصد آبادی کو 2100کیلوریز فی فرد کے حساب سے بھی غذا نصیب نہیں ہے جبکہ اقوام متحدہ کے صحت کے شعبے کے مطابق ہر فرد کو صحتمند زندگی گزارنے کیلئے روزانہ 2300کیلوریز ملنا اشد ضروری ہے۔ ملک کی 65فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ،مہنگائی میںاضافےکے حوالے سے بار بار اسمگلنگ کا نام بھی لیاجاتا ہے، جب کہ اسمگلنگ کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے ہاں ایسا نظام قائم ہو جس میں اسمگلنگ فائدہ مند نہ ہو لیکن ہم صرف تادیبی کارروائیوں سے اسمگلنگ پر قابوپاناچاہتے ہیں۔ یہ صرف سوچ کا فرق ہے اور یہ فرق زندگی کی ہر سطح پر موجود ہے اس فرق کو محسوس کرنا اور اس کے سیاق و سباق کو احاطہ شعور میں رکھنا الگ بات ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی اکثریت ہو جو موجودہ حالات میں یہ سمجھیں کہ معاشرے میںصرف اصلاحات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ضروری ہے کہ ذاتی، اقتصادی اور مادی عوامل کو زیر بحث لایا جائے اور اس زاویۂ نگاہ سے معاشرتی زندگی کو پرکھا جائے تاکہ ہم کسی فیصلے پر پہنچ سکیں۔

تازہ ترین