بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیان کے بعد یہ حقیقت عالمی سطح پر عیاں ہو چکی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ملک بھر خصوصاً بلوچستان میں دہشت گرد و تخریبی عناصر کی مکمل پشت پناہی کرنے اور انہیں ہر طرح کی کمک پہنچانے میں سرگرم عمل ہے جس کے ثبوت اسلام آباد کی جانب سے عالمی عدالت میں بھی پیش کئے گئے۔ اس کے باوجود وقفے وقفے سے بلوچستان میں دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے۔ کوئٹہ میں منگل کو ہونے والا بم دھماکہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ مذکورہ حملے میں باچاخان چوک کے قریب کھڑی پولیس وین کو نشانہ بنایا گیا۔ ذرائع کے مطابق بم موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا جسے ریموٹ کنٹرول سے اڑایا گیا۔ حملے میں پانچ افراد شہید اور ایڈیشنل ایس ایچ او سٹی سمیت 32افراد زخمی ہوئے۔ صورتحال کے پیش نظر تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جبکہ سات زخمیوں کی حالت تاحال تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ پولیس وین سمیت دو گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں اور متعدد موٹر سائیکلوں و قریبی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد اسی طرح حکام کی جانب سے نوٹس لئے جانے، دیگر سیاسی و اہم شخصیات کے مذمتی بیانات کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں، پھر کچھ روز بعد دوسرا سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہماری فورسز اور شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کی قربانی دی اور آج بھی دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ہمارے بہادر جوان و عام شہری اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ ایسی حکمت عملی وضع کی جائے جس میں دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی مقامی آبادی کے احساس محرومی کو دور کرنے کی بھی کوئی عملی صورت نکالی جائے۔