• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سلامتی کونسل اجلاس میں جائزہ لیا تھا، اندازہ نہیں تھا بھارت 24 گھنٹے میں یہ اقدام کرے گا، شاہ محمود

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ قومی سلامتی کونسل اجلاس میں جائزہ لیا تھا،اندازہ نہیں تھا بھارت 24گھنٹے میں یہ اقدام کرےگا، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام پر ہم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں جانے کی گنجائش کا بھی جائزہ لے رہے ہیں اور اپنے لاء ڈیپارٹمنٹ سے اس حوالے سے صلاح و مشورے بھی کررہے ہیں ،سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ بھارت نے خود اپنی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا،اس کے اثرات بہت بھیانک ہونگے،ماہر بین الاقوامی امور معید یوسف نے کہا کہ نریندر مودی اپنے پیر پر کلہاڑی ماررہے ہیں یہ معاملہ جو انہوں نے شروع کیا ہے یہ آسانی سے رکنے والا نہیں یہ معاملہ انڈیا کے ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے ناصرف اس اقدام کو مسترد کیا ہے بلکہ مذمت بھی کی ہے ، او آئی سی کے ساتھ اجلاس کی ہماری کوشش ہے ، بھارتی ہائی کمشنر کو بلا کر ہم نے وارننگ جاری کی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کی ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر طیب اردوان سے ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے اسی طرح میرے ذمہ لگایا گیا ہے کہ نیویارک میں جو پاکستان کا مشن ہے وہ اس حوالے سے دنیا کو آگاہ کرے ۔ ملیحہ لودھی سے میں نے کہا ہے اقوامی متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے صدر سے رابطہ کرے اور دیکھے کہ کس طرح سے ہم اس ایشو کو سیکورٹی کونسل میں لے جاسکتے ہیں ۔ اب بھی اگر بھارت سمجھتا ہے کہ ان ترامیم سے جو قانونی حیثیت ہے اس میں کوئی تبدیل آئی ہے یہ بھارت کی غلط فہمی ہے ۔ ہم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں جانے کی گنجائش کا بھی جائزہ لے رہے ہیں اور اپنے لاء ڈیپارٹمنٹ سے اس حوالے سے صلاح و مشورے بھی کررہے ہیں ۔ جتنے بھی آپشن ہیں ہم سب کو استعمال کریں گے اور ہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ کسی طرح مقبوضہ کشمیریوں سے بھی رابطہ ہو اور ان سے آگاہی لیں کہ وہ کس طرح سے پاکستان کی مدد چاہتے ہیں اور وہ مزید ہم سے کیا چاہتے ہیں ۔ مودی نے جو قدم اٹھایا ہے اس پر بات تو کافی عرصے سے ہورہی تھی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں وہ جماعتیں جو مودی سرکار کی اتحادی رہی ہیں ان کو بھی اس طرح کی توقع نہیں تھی اسی وجہ سے بھارت سرکار کو محبوبہ مفتی ، عمر عبداللہ اور دیگر اتحادیوں کو نظر بند کرنا پڑا ۔پاکستان کو اندازہ تھا کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی حرکت کی جاسکتی ہے اس کے کچھ اشارے بھی مل رہے تھے اور اس فیصلے سے پہلے جو نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس ہوا تھا اس میں بھی سب کی واضح رائے تھی کہ بھارت ایسا کرنے چلا ہے اور ہمیں تیار رہنا چاہئے تاہم ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ 24گھنٹے کے اندر یہ سب کر گزریں گے ۔ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ 15 اگست کو جو وزیراعظم مودی کی تقریر متوقع ہے اس میں وہ یہ بڑا اعلان کریں گے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کو اب اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور صدر ٹرمپ کو ہی نہیں بلکہ ہر اس قوت کو جو برصغیر میں امن و استحکام چاہتی ہے ، ہر اس انٹرنیشنل کمیونٹی کے حصے کو جو چاہتے ہیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تھم جائیں اور خون خرابہ نہ ہو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ یہ فیصلہ اس کو جس نگاہ سے بھی دیکھا جائے خواہ ڈپلومیٹک نگاہ سے ، انسانی نگاہ سے یا اب تک دونوں ممالک کے درمیان جو گفتگو ہوتی رہی ہے اس کی نگاہ سے یہ صریحاً بہت خطرناک کھیل کھیلا ہے بھارت نے ۔ماہر بین الاقوامی امور معید یوسف نے کہا کہ مودی اپنے پیر پر کلہاڑی ماررہے ہیں یہ معاملہ جو انہوں نے شروع کیا ہے یہ آسانی سے رکنے والا نہیں یہ معاملہ انڈیا کے ہاتھ سے نکل رہا ہے ، انڈیا کی تو پالیسی ہی یہ رہی ہے کہ ہمیں کسی تیسرے ملک کو بیچ میں نہیں آنے دینا ہے مگر اب جس طرف معاملات جارہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا ہیومن رائٹس بھی اس میں شامل ہوگیا ہے اور اب یہ مزید انٹرنیشنل سطح پر ابھرے گا تو مجھے تو بالکل ہی سمجھ نہ آئی کہ انہوں نے یہ کیا کیا ہے مگر اپنے پیر پر کلہاڑی ضرور ماری ہے ۔میرا خیال میں تو اب ہر کوئی اس معاملے میں شامل ہوگا کیونکہ اس اسٹیٹ کا لیگل اسٹیٹس تبدیل ہورہا ہے جواقوام متحدہ کا ایک ریکگنائزڈ ریزولیشن سمیت ایک تنازع ہے ظاہری بات ہے پاکستان اپنی ڈپلومیسی کرے گا ٹرمپ کو ایک اور موقع مل گیا ہے میرے نزدیک عمران خان اور ٹرمپ کا رابطہ ایک بار پھر ہوگا اور ہونا بھی چاہئے اور ٹرمپ کو آگاہ کرنا چاہئے کہ اب کیا کرنا ہے اورمیرے خیال میں جو ہندوستان کا ایرر ہے وہ یہ ہے کہ پلوامہ میں جو کچھ بھی ہوا فروری میں اس وقت امریکا کس کے ساتھ تھا کیا کیا امریکا کی بیوروکریسی میں ایک ایٹمی جنگ سے زیادہ خطرہ کسی چیز کو سمجھا نہیں جاتا تو اگر یہ معاملہ مزید بڑھتا ہے اور لائن آف کنٹرول پر ٹینشن بھی بڑھ جاتی ہے تو امریکا لازمی طور پر اس کا نوٹس لے گا اور کچھ نا کچھ کرے گا ۔ اگر واقعی کسی نے ثالثی کا کردار ادا کرنا ہے تو میرا خیال ہے اب اس کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔بھارت کے حوالے سے جب یہ خبر گرم تھی کہ وہ کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کرنے جارہے ہیں اور اسرائیل ان کے ساتھ ہے تو خیال یہ کیا جارہا ہے تھا کہ مسلم دنیا اٹھ جائے گی ، واویلا مچ جائے گا مگر افسوس ایک چوں تک نہ ہوسکی اس وقت بھی کسی نے بات تک نہ کی تو یقینی طو رپر یہ چیز بھارت نے بھی نوٹ کی ہوگی اور پھر سوچا ہوگا کہ اس وقت جب کچھ نہ ہوا تو اب بھی کچھ نہ ہوگا یہ کر گزرو ۔ اب انحصار اس بات پر ہے کہ کشمیر کے اندر سے کیا آواز اٹھتی ہے ۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان نے کچھ برسوں میں جو اپنی سفارت کاری کی ہے مگر اس میں بھی دنیا کا رجحان ہندوستان کی طرف ہی رہا مگر اب خود ہندوستان نے یہ اقدام کرکے گنجائش پیدا کردی ہے اور دنیا یقینی طو رپر بھارت کے اس غیر قانونی فیصلے کو نظرانداز نہیں کرسکتی خاص کر انسانی حقوق کے اینگل کو اور اقوام متحدہ لازمی طور پر اس میں انوالو ہوگا ۔ ابھی تک کی تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ جس طرح اسرائیل شام میں ظلم کرتا ہے اور شکایت پر امریکا ویٹو کردیتا ہے اسی طرح یہاں پر بھارت کے ساتھ بھی ہوگااور یہ معاملہ شاید اندرونی رہتے ہوئے ایسے ہی چلے گا اور شاید یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ہم نے یہ دیکھا بھی ہے کہ جب سپر پاور کا رجحان کسی ایک ملک کی طرف ہو تو پھر اس ملک کے بہت سے معاملات نظر انداز کردیئے جاتے ہیں ۔ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے یہ اتنا بڑا اقدام کیا گیا ہے کہ اس نے اس میں انٹرنیشنل سطح تک پر ہر چیز کی خلاف ورزی کی ہے اگر یہ کہا جائے کہ بھارت نے خود اپنی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسی کونسی انوائرنمنٹ ہوئی جس کی وجہ سے یہ قدم اٹھایاگیا ۔ یونائٹیڈ کنگڈم کو نہ بھولیں اس کو ہم انڈیا پاکستان کے تناظر میں دیکھتے آئے ہیں اس لئے ہم کہاں سے یہ توقع رکھیں کہ کوئی مورل ایکسپریشن آئے گا ۔حریت لیڈر تک سمجھ آتا ہے مگر محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کی نظر بندی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ وہ لوگ جو انڈیا کی جمہوریت کا یقین رکھتے تھے آج ان سب کے منہ پر تھپڑ پڑا ہے اور ان کو سمجھ آگئی ہے کہ وہ غلط تھے ۔ جب آپ بات چیت کے راستے بند کریں گے تو پھر لوگوں کے پاس احتجاج کا راستہ باقی بچتا ہے۔

تازہ ترین