• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک صحیح حدیث میں ہے : سخت سردی کے وقت صحابہؓ نے پانی کے استعمال کے حوالے سے شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں پٹی اور پگڑی پر مسح کرنے کاحکم فرمایا: فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَمْسَحُواعَلَی الْعَصَائِبِ وَالتَّسَاخِینِ،مگرحنفی فقہ میں پگڑی پر مسح جائز نہیں ،پھر اس حدیث کی روشنی میں ایسا کیوں ہے؟ یا پھر حنفی پگڑی پر مسح نہ کرنے کی اس سے صحیح تر اور مضبوط تر دلیل بتادیں۔ (ڈاکٹر خالد اعوان، امریکا)

جواب: آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ،وہ یہ ہے :ترجمہ:’’ حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک فوجی دستہ بھیجا ،اُنہیں ٹھنڈک پہنچی ،پس جب وہ واپس نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے آپ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے انہیں پٹی اور دستار پر مسح کرنے کا حکم فرمایا،(مسند امام احمد بن حنبل: 22383)‘‘۔

امام مسلم حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرتے ہیں:ترجمہ:’’نبی ﷺ نے موزوں پر مسح کیا اور سر کے اگلے حصے پر اور اپنے عمامہ پر ، (صحیح مسلم: 274)‘‘۔آپ کی بیان کردہ حدیث سے مضبوط تر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مبارک ہے : ’’اور سروں کا مسح کرو،(المائدہ:6)‘‘۔

عمامہ پر مسح کرنے کو اختیار کرنے سے خبر واحد سے قرآن مجید پر زیادتی لازم آتی ہے کیونکہ یہ حدیث خبرواحد ہے اور عمامہ پر مسح کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے ،لہٰذا اگر عمامہ پر مسح کا قول کیاجائے تو خبرِ واحد سے قرآن مجید پر زیادتی لازم آئے گی اور فقۂ حنفی میں خبرِ واحد سے قرآن پر زیادتی جائز نہیں ہے، یعنی خبرِ واحد کی بناپر قرآن کے صریح حکم پر نہ اضافہ کیاجائے گا اورنہ اس کی تاویل کی جائے گی ۔البتہ حدیث کی تاویل کی جائے گی کہ رسول اللہ ﷺ نے جو عمامے پر مسح کیا تھا ، اس کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے عمامہ کے نچلے حصے میںسر پر مسح کیا تھا اور اس میں حال کا اطلاق محل پر ہے اور شاید دور سے دیکھنے والے صحابی نے اُسے عمامے پر مسح سمجھا۔

اس کی تائید اس حدیث پاک سے ہوتی ہے :ترجمہ:’’ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ وضو کررہے تھے ،آپ کے سر پر قطری عمامہ تھا ،آپ نے اپنا ہاتھ عمامہ کے نیچے داخل کیا اور سر کے اگلے حصے پر مسح کیا اور عمامہ نہیں اتارا ،(سُنن ابو داؤد:147)‘‘۔

یعنی آپ ﷺ نے عمامہ اتارے بغیر ذرا اوپر کر کے چوتھائی سر کا مسح فرمایاکیونکہ فقہ حنفی میں چوتھائی سر کا مسح فرض ہے ۔

علامہ بدرالدین عینی حنفی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ عمامہ پر مسح کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے ،امام احمد فرماتے ہیں کہ اگر کامل وضو کے بعد عمامہ پہنا ہوتو عمامہ پر مسح کرنا جائز ہے ،جس طرح موزوں پر مسح کرنا جائز ہے ،جو فقہاء عمامہ پر مسح کرنے کا انکار کرتے ہیں ،اُن کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے : (اپنے سروں پر مسح کرو )اورجو شخص عمامہ پر مسح کرے گا ،وہ سر پر مسح نہیں ہو گا اور اس پر اجماع ہے کہ چہرے پر کوئی کپڑا لپیٹ کر اگر اس کپڑے پر مسح کیاجائے تو تیمم میں کافی نہیں ہوگا ،اس کا مستفاد یہ ہے کہ جس عضو پرمسح کرناہے ،اس عضو پر کپڑا رکھ کر مسح کیاجائے تو وہ کافی نہیں ہوگا ،اسی طرح سر پر عمامہ رکھ کر عمامہ پر مسح کیا جائے تو سر کے لیے وہ مسح کفایت نہیں کرے گا ۔علامہ خطابی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے سر پر مسح کرنے کو فرض کیاہے اورعمامہ پر مسح کرنے والی حدیث تاویل کا احتمال رکھتی ہے ،جوچیز تاویل کا احتمال رکھے ،اس کی وجہ سے یقینی چیز کو ترک نہیں کیاجائے گا ۔

علامہ ابن منذر نے کہا: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمامہ پر مسح کیا ،حضرت عمرؓ ، حضرت انسؓ اور حضرت ابو امامہؓ کابھی یہی قول ہے ،حضرت سعد بن مالک ؓاور حضرت ابو درداؓسے بھی یہی روایت ہے ، عمر بن عبدالعزیز ؒ،حسن ؒ،قتادہؒ ،مکحولؒ ،اوزاعیؒ اور ابوثورؒ کابھی یہی نظریہ ہے اور عروہؒ ،نخعیؒ ،شعبیؒ ،قاسمؒ ،امام مالکؒ ،امام شافعیؒ اور اصحابِ رائے (فقہائے احناف )نے کہا : عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں ہے ،(عمدۃ القاری ، جلد1،ص:101)‘‘۔

تازہ ترین