”عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں، عیدِ محکوماں ہجومِ مومنیں“ حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب دنیائے اسلام کا بیشتر حصہ مغرب کی سامراجی طاقتوں کا غلام تھا لیکن افسوس کہ پچھلی سات آٹھ دہائیوں میں ظاہری غلامی سے نجات حاصل کرلینے کے باوجود عملی غلامی آج بھی مسلم دنیا پر پوری طرح مسلط ہے، کرہ ارض پر آبالگ بھگ د دو ارب مسلمان عید قرباں اس حال میں منا رہے ہیں کہ زمین کے نقشے پر موجود کم و بیش ساٹھ آزاو و خودمختار کہلانے والی مسلمان ریاستوں میں سے اکثر عملاً غیروں کی دست نگر، اپنے فیصلوں اور پالیسی سازی میں انکے احکام و ہدایات کی پابند اور انکے ناجائز مطالبات و مفادات کی تکمیل پر مجبور ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ دنیاوی ذرائع اور وسائل کی کمی نہیں۔ دنیا کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 24فیصد سے زیادہ ہے جبکہ زمین کے کل قابل بود و باش رقبے کا 21فیصد سے زیادہ مسلم ملکوں پر مشتمل ہے۔ معدنی دولت کے وسیع ذخائر سے مسلم دنیا مالا مال ہے۔ اس سب کے باوجود مسلم ملکوں کی قیادتیں پچھلے سات عشروں میں نہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو اسرائیل کے ناجائز تسلط سے نجات دلا سکیں، نہ کشمیری مسلمانوں کو بھارت کے خون آشام چنگل سے نکالا جا سکا اور نہ ہی روہنگیا مسلمانوں کو برمی حکومت کی نسل کشی کی سفاکانہ مہم جوئی سے بچانے کی کوئی مؤثر کوشش کی جا سکی۔ موجودہ صدی کے دو عشروں میں افغانستان اور عراق کسی حقیقی جواز کے بغیر اغیار کی تاخت و تاراج کا ہدف بنے۔ اور بعض مسلمان ریاستوں کے حکمراں اپنے ذاتی مفادات کو محفوظ رکھنے کی خاطر یا حالات کے جبر کے تحت انکے ساتھ کھڑے رہے۔ شام اور یمن میں جاری المناک برادر کشی اور خوں ریزی کو ختم کرانے میں نہ ستاون مسلم ملکوں پر مشتمل او آئی سی سے کچھ بن پڑا نہ عرب لیگ اور خلیج تعاون تنظیم کیلئے کسی نتیجہ خیز کردار کی ادائیگی ممکن ہوئی جبکہ عرب ایران اختلافات کا کوئی پُرامن اور متفقہ حل تلاش کرنے کی کسی بھی سطح پر کوئی حقیقی کوشش بھی ہوتی دکھائی نہیں دیتی اور تمام آثار اسی خدشے کو تقویت دے رہے ہیں کہ یہ باہمی چپقلش کسی بھی وقت ہولناک تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ آج سے ٹھیک نصف صدی پہلے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی ناپاک صہیونی سازش پر پورا عالم اسلام تڑپ اٹھا تھا اور مسلم ممالک کے حکمرانوں نے اسلامی اخوت کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر مراکش کے دارالحکومت رباط میں جمع ہوکر مسلم ملکوں کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اور اسرائیل کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنے قبلہ اول کی حفاظت کیلئے پوری دنیا کے مسلمان متحد ہیں، اسکی تباہی کی کوشش کو پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائیگا اور تمام مسلم ملک مل کر اس کا جواب دیں گے لیکن آج اس جذبے کو کہیں ڈھونڈنا محال ہے۔ اس کے چند سال بعد لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس بھی مسلم دنیا کے اتحاد کا ایک متاثر کن مظاہرہ تھی، شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو، معمر قذافی اور یاسر عرفات جیسے قد آور، مدبر اور زیرک حکمراں عالم اسلام کو میسر تھے، اسلامی بلاک کی تشکیل کی منزل بہت قریب معلوم ہوتی تھی اور لگتا تھا کہ ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے “ کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ تاہم آج جب پوری دنیا کے مسلمان سنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی میں اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرکے اورفریضہ حج کی ادائیگی کی خاطر کرہ ارض کے گوشے گوشے سے سرزمین حرم پہنچ کر ہم آہنگی اور یگانگت کا بے مثال مظاہرہ کر رہے ہیں تو یہ اس بات پر غور کرنے کا مناسب ترین موقع ہے کہ اسلامی اتحاد کے اس سالانہ روایتی مظاہرے کو مستقل اور حقیقی شکل دینے اور دنیا میں ایک بار پھر سرفرازی اور وقار و شوکت کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کیلئے کون سی تدابیر اور اقدامات ضروری ہیں۔ باہمی اختلافات افہام و تفہیم سے حل کرکے مسلم معاشرے اسلامی اخلاق و کردار کو اپنائیں اور مسلمان ریاستیں اپنے وسائل علم و فن اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے ترجیحی طور پر استعمال کریں تو کامرانی کی راہیں یقیناً کشادہ ہوسکتی ہیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998