• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی بے باکانہ جدوجہد اور لاکھوں مردوں، عورتوں اور معصوم بچوں کی شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے امیدوں کا مرکز بن کر دنیا کے نقشے پر ظہور پزیر ہوا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دنیا کی اس مملکت کا یومِ آزادی آج ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے کہ نہ صرف اس کی منزل متعین کرنے والی قراردادِ مقاصد پر عملدرآمد کے حوالے سے ذہنوں میں ابہام ہیں بلکہ تقسیم ہند کا اصل ایجنڈا بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ اس ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ دوسری ریاستوں کے علاوہ 92فیصد مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر کو یہ اختیار دینا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہے شامل ہو جائے۔ بھارتی حکمرانوں نے ان ریاستوں کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا سب کو معلوم ہے۔ کشمیری عوام نے اپنی آزادی کے لئے ہتھیار اٹھا لئے اور سری نگر پر مجاہدین کا قبضہ ہونے ہی والا تھا کہ بھارت نے سلامتی کونسل کو جنگ بندی کی دہائی دی اور وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے حق خود ارادیت دینے کے لئے تیار ہے۔ سلامتی کونسل نے کشمیر کو متنازع قرار دیتے ہوئے کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا مگر دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قرارداد کی کس طرح دھجیاں اڑائیں اور تین بڑی جنگوں، جن کے اختتام پر وہ ہر بار مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کے وعدے کرتا رہا اور بھارتی فوج اور انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں کم و بیش پانچ لاکھ مسلمانوں کے قتل عام، مسلم خواتین کی بے حرمتی اور املاک کی تباہی کے دلدوز مناظر کے ساتھ مقبوضہ کشمیر پر 8لاکھ سے زائد فوج کی مدد سے غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا۔ اب اس نے بھارتی آئین سے وہ شقیں بھی نکال دیں جن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو نیم خود مختاری حاصل تھی۔ اسے کشمیری عوام، پاکستان اور عالمی برادری نے مسترد کردیا ہے۔ اس وقت مقبوضہ ریاست میں صدر راج نافذ ہے پوری ریاست میں کرفیو اور دفعہ 144نافذ ہے فوج کو گھروں سے نکلنے والے لوگوں کو گولی سے اڑا دینے کا حکم ہے۔ اخبارات، ٹی وی چینل، موبائل فون، انٹرنیٹ سروس سمیت باہر کی دنیا کو اطلاعات کی فراہمی کے تمام ذرائع پر پابندی ہے، حریت رہنما نظر بند ہیں، وہ بھارت نواز لیڈر بھی گرفتار کر لئے گئے ہیں جنہوں نے بھارتی اقدام کی مخالفت کی۔ عیدالاضحی پر مساجد اور عیدگاہوں میں نماز عید پڑھنے پر بھی پابندی لگا گئی تھی۔ لوگ قربانی بھی نہیں دے سکے کرفیو اور گلی کوچوں میں فوج کے گشت کی وجہ سے گھروں میں خوراک اور ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے، کشمیری جو بھارتی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں تمام تر پابندیوں کے باوجود اگلے روز سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے، پاکستان نے ملک کے72ویں یوم آزادی کو کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے دن کے طور پر منانے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے اقدامات کے ساتھ حکومت اس مسئلے کو دوبارہ سلامتی کونسل میں لے جا رہی ہے اور اس عمل میں چین نے اس کی اعلانیہ حمایت کی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ چینی ہم منصب سے ملے اور انہیں منانے کی کوشش کی مگر چین نے دو ٹوک الفاظ میں بھارتی موقف مسترد کردیا ہے۔ آج یوم آزادی پر پورے پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں قومی پرچم کے ساتھ کشمیر کا پرچم بھی لہرایا جائے گا۔ کل بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کشمیری عوام کی حمایت میں کسی بھی حد تک جانے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کی شہ رگ کو بھارت سے چھڑانے کے عزم کا جرأت مندانہ اظہار ہے۔ حکومت کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کےلئے تمام وسائل استعمال کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں عالمی رائے عامہ بھی متحرک ہوئی ہے اور مسئلہ کشمیر ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے، توقع کی جا سکتی ہے کہ اگلے یوم آزادی پر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام آزادی کی سحر دیکھ رہے ہوں گے۔

تازہ ترین