• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ملک بھر میں یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے اور ملک کے طول و عرض میں وطن عزیز کی سالمیت کی دعائیں مانگی جارہی ہیں۔ عمارتوں کی سجاوٹ کے ساتھ ان پر قومی پرچم لہراتے نظر آرہے ہیں۔ مادرِ وطن کی اہم عمارتوں کی بات کی جائے تو ہر کسی کی اپنی تاریخی اہمیت اور پسِ منظر ہے۔ ذیل میں ہم پاکستان کی کچھ انتہائی اہم عمارتوں کا ذکر کررہے ہیں، جنہیں  پاکستان کی پہچان کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔

مزارِ قائد

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒکی آخری آرام گاہ کی تعمیر کا فیصلہ 21جنوری 1956ء کوکیا گیا۔ مزار کا ڈیزائن یحییٰ مرچنٹ نے بنایا جبکہ تعمیراتی کام کا باقاعدہ آغاز8فروری 1960ء کو کیا گیا۔31مئی 1966ء کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہوا اور 12 جون 1970ء کو عمارت کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس کی اونچائی سطح سمندر سے91فٹ بلند رکھی گئی ہے اور اس کا کُل رقبہ131.58ایکڑ ہے، جس پر بعد میں خوبصورت باغات لگائے گئے، راہ داریاں بنائی گئیں اور فوارے و آبشاریں نصب کی گئیں۔ دسمبر1970ء میں چینی مسلمانوں کی ایسوسی ایشن کی جانب سے81فٹ طویل فانوس تحفے میںدیا گیا،جسے گنبد میں نصب کیا گیا۔ فانوس میں 41طاقتور برقی قمقمے نصب تھے۔ 46سال کے طویل عرصے میں فانوس پرانا ہوجانے کے پیش نظر 2016ء میں چین نےایک اور فانوس کا تحفہ دیا، جس کا وزن 2من اور قطر28مربع میٹر ہے جبکہ اس میں48برقی قمقمے اور 8.3کلو گرام سونے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ہر سال قومی دن کی مرکزی تقریب مزار قائد پر منعقد کی جاتی ہے، جس میں پرچم کشائی کے علاوہ مزارپر گارڈز کی تبدیلی بھی کی جاتی ہے۔

مینارِ پاکستان

کچھ چیزیں ہوتی تو علامتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک یادگار کا نام مینارِ پاکستان ہے۔ لاہور کے تاریخی شہر کےاقبال پارک (پرانا نام منٹو پارک) میں تعمیر شدہ مینار کو تاریخِ پاکستان، تحریکِ آزادی پاکستان اور من حیث القوم ہماری زندگیوں اور ہماری اقدار میں ایک تاریخی و نظریاتی اہمیت حاصل ہے۔ ہر پاکستانی مینارِ پاکستان سے والہانہ عقیدت رکھتا ہے، جس کی بنیاد قومی جذبہ حب الوطنی، تحریکِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے ساتھ عقیدت و احترام میں پنہاں ہے۔ مینارِ پاکستان کو دیکھ کر تحریکِ آزادی او ر قراردادِ لاہور (جو بعد میں قراردادِ پاکستان کہلائی) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جو آگے چل کر آزاد مملکت کے وجود میں آنے کا باعث بنی۔ مینار کی بلندی196فٹ ہے ، جس کے اوپر جانے کے لیے324 سیڑھیاں ہیں جبکہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔مینارکا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشابہت رکھتا ہے اوراس کی سنگِ مرمر کی دیواروں پرقرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اورعلامہ محمد اقبال کے اقوال اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی مختصرتاریخ کندہ ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس

اسلام آباد میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت ملک میں آئین سازی کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس عمارت کی تعمیر میں 11سال کا عرصہ لگا اور 28مئی1986ء کو افتتاح کیا گیا۔ پانچ منزلہ اس عمارت کی تمام منزلوں کا کُل رقبہ تقریباً 5لاکھ98ہزار مربع فٹ ہے جبکہ نچلی منزل کا رقبہ ایک لاکھ 76ہزار889مربع فٹ ہے۔ اس عمارت کی دوسری منزل پر قومی اسمبلی اور سینیٹ ہال کے علاوہ وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبرز موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے چاروں کونوں پر لائٹ ویل بنائے گئے ہیں تاکہ دھوپ اور ہوا عمارت کے اندر داخل ہوسکے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ کو پاکستان کی اعلیٰ عدالت ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان کی خوبصورت سرکاری عمارات میںاسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ کی عمارت بھی سرفہرست شمار کی جاتی ہے۔ یہ عمارت ملک بھر میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی سرپرستی کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ڈیزائن مختلف اعزازات اپنے نام کرنے والی جاپانی آرکیٹیکچر فرم Kenzo Tange ایسوسی ایٹس نے تیار کیا تھا جبکہ سی ڈی انجینئرنگ اور سیمیز انجینئرنگ نے اس کمپلیکس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ یہ عمارت 3,39,861اسکوائر فٹ رقبے پر تعمیر کی گئی، جس کی تعمیر پر تقریباً 61کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت خوبصورت سفید ماربل سے تعمیر کی گئی ہے جو کہ یورپین اور اسلامی فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔ مرکزی سینٹرل بلاک گیارہ کورٹ رومز پر مشتمل ہے، جس میں سے پانچ مرکزی کورٹ رومز کہلاتے ہیں۔ ججز چیمبر بلاک کی جانب رُخ کریں تو اس حصہ میں چیمبر ہاؤسز اور چیف جسٹس آفس تعمیر کیا گیا ہے۔بیسمنٹ میں واقع لائبریر ی میں تقریباً 7200کتابیں، رپورٹس اور جرنل موجود ہیں ۔

وزیراعظم ہاؤس

اسلام آباد کے ریڈزون میں وزیر اعظم ہاؤس کی عمارت قائم ہے۔ اس کی تعمیر 1963ء میں شروع ہوئی اور تقریباً 7سال کے عرصے میں یہ عمارت مکمل کی گئی۔ اس عمارت کی تعمیر میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معماروں اور کے ڈی اے کے انجینئروں نے حصہ لیا۔ یہ پاکستان کی وسیع و عریض عمارتوں میں سے ایک ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کے طول وعرض کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ یہ پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک قائداعظم یونیورسٹی جیسی 4بڑی یونیورسٹیاں اپنے اندر سمو سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کا وزیر اعظم ہاؤس کے خالی رقبے پر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانے کا منصوبہ ہے۔

گورنر ہاؤس کراچی

گورنر سندھ کی سرکاری رہائش گاہ کراچی کے ایوان صدر روڈ پر واقع ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی یہ سرکاری رہائش گاہ تھی اور ایک عرصے تک یہ عمارت گورنر جنرل ہاؤس بھی کہلاتی رہی۔ اس میں قائداعظم کے زیرِ استعمال رہنے والی اشیابھی موجود ہیں۔ گورنر ہاؤس کراچی کی عمارت برطانوی آرکیٹیکچر موزیز اسموک نےڈیزائن کی تھی۔ 1939ء میں تعمیر کی گئی یہ عمارت نو آبادیاتی طرز پر خوبصورت برآمدہ، سرونٹ کوارٹرزاور بڑے بڑے کمروں پر مشتمل ہے۔ گورنر ہاؤس کراچی میں ایک سوئمنگ پول ،گھوڑوں کا اصطبل جبکہ عمارت کے ایک حصے میں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی موجود ہے۔  

تازہ ترین