• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری سنو

میں تم سے مخاطب ہوں

میں پاکستان ہوں

تمہاری ماں مٹی

میں نے ان لوگوں کی امیدوں کی

کوکھ سے جنم لیا تھا

جو اب ہم تم میں نہیں ہیں

وہ سچے لوگ جنہوں نے

ایک علیحدہ مملکت کا خواب دیکھا تھا

ایسی مملکت کا خواب

جس میں وہ اور آنے والی آئندہ نسلیں

آزادی اور فخر کے ساتھ خود کو

انسان کہہ سکیں

وہ سچے لوگ جنہوں نے

اس خواب کی تعبیر کیلئے

اپنی زندگیاں دائو پر لگا دی تھیں

میں انہی سچے لوگوں کے

خوابوں کی تعبیر ہوں

میں چوبیس سال کی ہوئی

تو جھوٹ کے گماشتوں نے

میرا آدھا بدن کاٹ دیا

میں پھر بھی اپنے پیروں پر پورا

وزن اٹھا کر چلتی رہی

پھر میں خود کو غیر محفوظ سمجھتی رہی

کہ میرے ارد گرد اب بھی

بڑی طاقتوں کے گماشتے موجود تھے

امیدیں مجھ سے چھپتی پھر رہی تھیں

حالانکہ میں کوئی بھولا ہوا سبق نہیں تھی

میں ٹوٹی ہوئی شاخ نہیں تھی

مگر اپنے ارد گرد دھویں کے مرغولے

دیکھ کر آزادی کو دھندلایا ہوا محسوس

کر رہی تھی

یہ کون سے شعلے تھے

جو میرے اسلاف کی فتح مندیوں کو

جھلسا رہے تھے

یہ کیسا خوف تھا

جو میری رگوں میں جوش مارتے

خون کو شرمساری کی برف میں

دھنسے جا رہا تھا!

میں نے تو ہوا کے پروں پر بھی

’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ لکھا تھا

میرے زمانے میں تو تتلیوں نے بھی

میرے پرچم کا رنگ پہنا تھا

میں نے اپنی دہلیز پہ آزادی کا دیا

اس لیے رکھا تھا

کہ غلام قومیں، اس کی روشنی میں

آزاد ہونا سیکھیں گی

وہ کون تھا

جو میرے گونجتے نعرے لے کر

زہر ناک سرگوشیوں میں لپیٹ کر

میرا تن من دھن، میرا ضمیر لے گیا

میرے بچو!

میرے سچے لوگوں کے بچو!

تم اپنی وراثت کوبھول کر

کب تک اپنے ضمیر کو جھٹلاتے رہو گے

جھوٹے وعدوں کو۔ ہنستے رہو گے

میرے بچو!

مجھے تمہارے لفظ نہیں چاہئیں

پھٹی ہوئی تصویر میں لپٹے ہوئے

زر و جواہر کو دیکھ کر

دنیا تم پر ہنس رہی ہے

یہ تمہارا مقدر نہیں ہے

میری بنتی سنو!

مجھے میرے سفید بالوں کا وقار

لوٹا دو

مجھے میری کوکھ میں پلنے والا امن

واپس لوٹا دو

میرے قائداعظم کی اولادو!

اٹھو میرے بچو! میں تم سے مخاطب ہوں

ماں! بھلا اور کس سے بات کر سکتی ہے!

تازہ ترین