• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی سطح پہ مسلمانوں کو اور ان کے اعمال کو عموماً تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جن میں سے ایک عیدالضحیٰ یعنی بقرعید کا تہوار ہے۔ جس میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی یاد میں صاحب حیثیت مسلمانوں کو جانورکی قربانی کروانا واجب ہے اور یوں حضرت ابراہیمؑ کی سنت بھی ادا ہوجاتی ہے اور غریبوں کو مہنگا گوشت بھی میسرآجاتا ہے۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ بڑا ظالمانہ رویہ ہے کہ جانورکو چھری سے کاٹ دیا جائے صرف زبان کا ذائقہ لینے کے لیے ۔اس کے جواب میں سارے مذاہب کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ وہیل مچھلی سے لیکرکیڑے مکوڑے الغرض حیوان سے لیکرچرندپرند، حشرت ارض ہر کسی کو کہیں نہ کہیں کھایا جاتا ہے۔ تواعتراض صرف مسلمانوں کے تہوار پر کیوں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ غیرمسلم لوگ جب مسلمانوں کے عمل سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں تو بجائے سرہانے کے اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ حج کے موقع پہ لوگوں کا مجمع اور ایک اذان کی آواز پر لاکھوں لوگوں کاصفیں بنالینا۔ ایسی تنظیم ہے کہ واقعی انسانی عقل حیران ہی رہ جاتی ہے۔ دوسرے ان کے یہاں ایک مخصوص تعداد سے زیادہ افراد کا اجتماع نہیں کیا جاتا کیونکہ انتظام ممکن نہیں ہوتا۔ پھر بقرعید میں دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں اربوں کھربوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اور ہر کوئی خوشی خوشی اس میں شریک ہوتا ہے۔ پاکستان کی ہی مثال لے لیں ۔(1)۔مویشیوں کی فروخت، (2)۔ فروخت ہونے والے جانوروں کے لیے چارے کی فروخت، (3)۔چارہ فروخت ہونے سے پہلے اس کے اگانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ وہ بھی یقیناً کسی کے روزگار کا ذریعہ ہوتا ہے،(4)۔جانوروں کو منڈی سے گھروں تک لانے کے لیے سواری کا انتظام، سواری فراہم کرنے والوں کی آمدنی،(5)۔ جانوروں کو خوبصورت اور نمایاں کرنے کے لیے ان کی آرائش کے لیے زیورات کی فروخت،(6)۔بیمارپڑجانے کی صورت میں جانوروں کے ڈاکٹروں کی آمدنی،(7)۔جانوروں کو نہلانے کا بندوبست اب باقاعدہ یہ کاروبار کی شکل بن چکا ہے،(8)۔گھروں میں جانورآنے کے بعد گھر میں جگہ نہ ہونے کے باعث شامیانے کا بندوست، شامیانہ فراہم کرنے والے کی آمدنی،(9)۔جانوروں کی حفاظت کے لیے چوکیدار کا انتظام، چوکیدار کی آمدنی،(10)۔روزانہ کی بنیاد پر جانوروں کے باندھے جانے والی جگہ پر صفائی کا انتظام، صفائی کرنے والوں کی آمدنی،(11)۔بقرعید کے روز جانور کو ذبح کرنے کے لیے قصائیوں کا انتظام، قصائیوں کی آمدنی، (12)۔چھری چاقوتیز کرنے والوں کی آمدنی، (13)۔چاپڑ، نئے چاقوں اور لکڑی کے ٹکڑے(مڈی)کی مانگ اور اس کا کاروبار ، (14) کھال جمع کرنے والوں کی آمدنی، (15)۔ آلائش اور اوجھڑی اٹھانے والوں کی آمدنی، (16)۔جگہ جگہ قیمہ، پسندے، کباب بنانے والے اسٹال اور ان کی آمدنی، (17)۔قربانی کے بعد چونے کا چھڑکاؤ اور گھروں کی صفائی کرنے والوں کی آمدنی،(18)۔کوئلے ، سخیوں اور انگیٹھی کی مانگ اور

اس کے فروخت کرنے والوں کی آمدنی۔ شاید اور بھی ہوں لیکن اگر صرف ان اٹھارہ ذرائع آمدن کو ہی دیکھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ کہیں کوئی کسی سے شکوہ یاگلہ کرتا نظرنہیں آتا۔ خریدوفروخت کے وقت تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے ہورہے ہوتے ہیں ۔ لیکن برائی کوئی کسی کی نہیں کرتا۔ مہنگا سے مہنگا جانور خوشی خوشی لاکر قربان کیا جاتا ہے۔ اور فخرسے بتایاجاتا ہے کہ ہم اتنامہنگا لائیں ہیں ۔ کوئی یہ کہتا نظرنہیں آتا ہے کہ مارکیٹ میں سب چور بیٹھے ہیں۔غریبوں کاخون چوساجارہا ہے۔ یقیناً یہ رب کی رحمت ہے کہ ایک مہینے سے بھی کم میں سب خوشی خوشی کاروبار کریں اور کھربوں کا بزنس بھی ہوجائے اور کسی کے ماتھے پہ شکن نہ آئے۔غیروں کے دل پہ یقیناً گراں گزرتا ہے۔ بقول بزرگوں کہ ہمیشہ تنقید اپنے سے بہتر لوگوں کی کی جاتی ہے کمتر کی نہیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین