• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عزیزی فردوس! میں تمہیں جانتی اتنا نہیں جتنا پہچانتی ہوں۔ یاد ہے تم میرے ساتھ جہاز میں دہلی جا رہی تھیں۔ تمہارے ہاتھ میں سونے کا تاج تھا، جو تم حیدر آباد دکن جاکر شعیب ملک کی بیوی کو پہنانے، پیپلز پارٹی حکومت کی نمائندہ بن کر جا رہی تھیں۔ تم جو بھی کام کرتی ہو، محنت، عقیدت اور محبت (وقت موجود) کے ساتھ کرتی ہو۔ اب تمہیں ہمارے وزیراعظم کی جانب سے، حکومت اور ان کی نمائندگی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ جس میں اب تک تم نے نابکار حکومتوں کی ناگفتہ بہ غلطیوں کو آشکار کیا ہے۔

عزیزی فردوس! میں تم سے بڑی نسل سے ہونے کے باعث تم سے زیادہ بد حرکتیں اور سیاسی شعبدہ بازیاں دیکھے ہوئے ہوں۔ ہم تو وہ نسل ہیں جنہوں نے پاگل غلام کو تھوکتے اور گالیاں دینے کے باوجود، وزیراعظم کہا، ہم تو وہ نسل ہیں جنہوں نے شریف النسل خواجہ ناظم الدین کو کرسی سے اتارتے ہوئے دیکھا۔ ہم وہ نسل ہیں جنہوں نے قرارداد مقاصد، اعتراضات کے باوجود پاس ہوتے دیکھی۔ ہماری نسل جو زندہ ہے بڑی بے غیرت ہے کہ ہمارے ستر ہزار لوگ بے مقصد شہید ہوئے۔ ہمارے پچاسیوں صحافیوں کو حق لکھنے پر گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ ہمارے جن چینلوں کے باعث بقول عمران خان ان کی پارٹی کو اپنا پروگرام پیش کرنے کا موقع ملا، اب وہی چینل ان کو ایسے برے لگنے لگے ہیں کہ کبھی کسی کو بند، کسی کو پیچھے، کسی کی آواز غائب تو کبھی پروگرام شروع ہوتے ہی اسکرین سفید ہو جاتی ہے۔

عزیزی فردوس! مجھے تم سے بہت ضروری، اہم، سیاسی اور موجودہ صورت حالات کے بارے میں، درخواست کرنا ہے کہ ذرا ان موضوعات کو چھیڑو اور قوم اور ملک پر ان کے اثرات کا جائزہ لو۔

تم جانتی ہو، امریکہ افغانستان سے بھاگنا چاہتا ہے۔ چلو اچھا ہے کہ سالانہ ایک ارب ڈالر، اس فوج پر خرچ کر رہا تھا جو امن کے لئے کچھ نہیں کر رہی تھی اور یہ فوج 2001سے موجود تھی اور واپسی پر باڈی بیگز لے جاتی رہی۔ اس کی موجودگی کا الزام، طالبان اور خود افغانی عوام اور حکومت کے سر پر تھوپتے رہے۔ دوسری طرف انڈیا نے افغانستان میں یونیورسٹی بنانے کے علاوہ، اپنے کئی قونصلیٹ کے ذریعے پاکستان کےخلاف نوجوانوں خصوصاً بلوچ نوجوانوں کو ورغلایا۔ آج یعنی 2019میں افغان، پاکستان کے راستے طورخم، چمن اور واہگہ کے راستے تجارت کرنے پر اتنا زور دے رہے ہیں کہ آئندہ طورخم بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کے انتظامات ہو رہے ہیں۔ ان تمام رعایتوں کے باوجود، افغانی پاکستان سے نفرت کرتےہیں۔ ملا فضل اللہ وہیں مقیم تھا۔ طالبان ایک تہائی افغانستان پر آج بھی قابض ہیں مگر طالبان کے ہر حملے کے پیچھے وہ پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ اب جبکہ ستمبر تک وہاں انتخابات اور مصالحت کے آثار، ہمارے وزیراعظم کے دورے کے باعث نظر آنا شروع ہوئے ہیں تو میری عزیزی فردوس! ان سیاسی غلط فہمیوں اور نفرتوں کو دور کرنے کی ذمہ داری تمہارے سر ہے۔

سی پیک، منصوبہ کبھی لگتا ہے چل رہا ہے کبھی لگتا ہے منجمد ہے۔ ہونے والی ترقی، تبدیلی سی پیک کے باعث ہے کہ گوادر کے چھوٹے ماہی گیر جن کی خاندانی بودوباش مچھلیاں پکڑنے پر منحصر ہے۔ اس موضوع پر کھل کر بات کرو کہ کبھی لگتا ہے ہم سینٹرل ایشین ممالک تک اسی سی پیک کے ذریعہ پہنچ جائیں گے۔ کبھی لگتا ہے کہ سمرقند سے گوادر تک ہم خوب سیر کریں گے۔ سامنے سب کچھ دھندلا ہے۔ بجٹ میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ مغالطے دور کرنے کی ذمہ داری تمہاری ہے۔

تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایران سے ہمارے نہ صرف ثقافتی اور لسانی رشتے ہیں مگر سعودی اور ایرانی حکومت کی آپس کی چپقلش میں، امریکہ بہادر جیت جائے اور ہمارے سینگ پھنسے رہیں۔ کسی دن وزارت خارجہ کے ساتھ بیٹھو اور ساری گتھیاں سلجھانے کے لئے باتیں کرو۔ قوم کو شعور اینکرز نے تو نہیں دینا ہے۔ وزیروں نے بھی نہیں دینا ہے۔ یہ ساری ذمہ داری تمہارے کندھوں پر ہے۔ تمہیں کبھی سیاسی ورکر، کبھی ماں اور کبھی عام شہری بن کر بولنا ہے۔ اب رہا انڈیا کا مسئلہ، دونوں ملکوں کے لوگ ملنا چاہتے ہیں۔ امن چاہتے ہیں مگر دونوں میں مذہبی اجارہ داری جگہ جگہ اڑنگا لگا دیتی ہے۔ کبھی پلوامہ ہو جاتا ہے، کبھی ممبئی۔ آخر کب تک کارگل جیسے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کی طرح بے سوچے سمجھے اور نسیم زہرہ کی تحقیق کی ہوئی معلومات کو جھٹلاتے اور تاریخ کے خالی صفحے چھوڑنے سے، عالمی دشنام طرازی سے ہم چھپتے رہیں گے۔

عزیزی فردوس! یہ سچ ہے کہ لیاقت علی خان اور بھٹو صاحب دونوں نے سیاسی غلطیاں کیں اور اس کا بھگتان بھی انہیں اٹھانا پڑا اب اور کڑا وقت ہے۔ عمران خان کی مدد کرنا ہے تو اول سادگی اختیار کرو۔ لوگوں کی بنیادی مشکلات اور 46فیصد نوجوانوں کے مسائل، اکیلی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کیا کیا کرے گی۔ یہ تمہاری ذمہ داریاں ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین