• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کو دائمی حیثیت دینے کا اپنی دانست میں جو شاطرانہ اقدام کیا تھا، تین ہفتے سے جاری صورتحال گواہ ہے کہ یہ فیصلہ اس کے گلے پڑ گیا ہے۔ اس کھلی دھاندلی کے خلاف کشمیری عوام کے سراپا احتجاج بن جانے کی وجہ سے کئی عشروں کے بعد تنازع کشمیر آج ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ کا محور بنا ہوا ہے۔ حریت قیادت ہی نہیں نئی دہلی کے اتحادی کشمیری رہنماؤں کی بھی نظر بندی کے باوجود مقبوضہ وادی کا بچہ بچہ بھارتی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ روز جمعہ کی نماز کے اجتماعات کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزادی اور قابض فوج کی بہیمیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بدلنے سے روکنے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی گئیں پھر بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جبکہ پاکستان کے طول و عرض کے علاوہ اہم عالمی مراکز میں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم پیرس پہنچے تو پورے یورپ سے آئے ہوئے کشمیریوں، پاکستانیوں اور سکھوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کو مستقل حیثیت دینے کے ناجائز اقدام کے خلاف پُرزور احتجاج کی شکل میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ عالمی طاقتیں، ادارہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں دیکھ رہی ہیں کہ بھارتی درندگی نہ صرف کشمیر میں کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے بلکہ حالات کی ابتری یونہی بڑھتی رہی تو جنوبی ایشیا کی جوہری طاقتوں کے درمیان ایسی خوفناک جنگ چھڑ سکتی ہے جس کے تباہ کن اثرات کا پوری دنیا پر مرتب ہونا یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی طاقتیں صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت و پاکستان، دونوں صورتحال کو مزید بگاڑسے بچانے اور تنازع کو بات چیت سے طے کرنے کی تلقین کر رہی ہیں۔ مودی سرکار نے آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کرنے کا جو اقدام کیا ہے، کشمیری باشندوں کی مرضی کے قطعی علی الرغم ہونے کی وجہ سے اس کا اخلاقی ہی نہیں کوئی قانونی جواز بھی نہیں ہے۔ ان حالات نے کشمیریوں کی تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی ہے اور ان کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے سنگ دلی اور شقاوت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کے سوا مودی حکومت کو کوئی تدبیر سوجھ نہیں رہی لیکن ایسی حالت میں بھارت پر عالمی دباؤ کا بڑھتے چلے جانا لازمی ہے۔ لہٰذا گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا یہ خدشہ کہ مودی سرکار کشمیر کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے کسی جعلی دہشت گرد کارروائی کا ناٹک رچا کر اس کا الزام پاکستان پر ڈال سکتی ہے، بالکل قرین قیاس اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی روایت کے عین مطابق ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل سے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے علاوہ اس حوالے سے اپنے ایک ٹویٹر بیان کے ذریعے پوری عالمی برادری کو بھی متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے اس اندیشے کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ بھارتی میڈیا پر یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ افغانستان سے کچھ دہشت گرد مقبوضہ کشمیر اور جنوبی بھارت میں داخل ہو گئے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کو کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے ایک مراسلے کے ذریعے آگاہ کرنے کے علاوہ میڈیا سے بات چیت میں واضح کیا ہے کہ بھارت خون کی ہولی کھیلنے کے لئے دہشت گردی کی جھوٹی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے جس کا الزام پاکستان پر لگایا جائے گا۔ ایسا ہوا تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے، عمران خان کا یہ کہنا کہ اس کشیدگی کا نتیجہ ’’کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ معاملے کی سنگینی کو پوری طرح واضح کرتا ہے، لہٰذا اس آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے ہی عالمی برادری کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق تنازع کشمیر کے منصفانہ تصفیے کے لئے اپنا کردار نتیجہ خیز طور پر ادا کر کے علاقائی اور عالمی امن کو یقینی بنانا چاہئے ورنہ صرف جنوبی ایشیا ہی کو نہیں پوری دنیا کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔

تازہ ترین