• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ سعدی شیرازی فارسی کے عظیم شاعر و نثرنگار تھے۔ ان کی کتابیں ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ ایک عرصے تک برِ عظیم پاک وہند میں بھی بطور نصاب رائج رہی ہیں۔ ان کے کئی مصرعے بلکہ اشعار اور جملے فارسی اور اردو میں بھی ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔مثلاً ان کا یہ شعر ایک عجب لطف رکھتا ہے :

ہر گز حسد نہ ُبردم بر منصبے و مالے

اِلّا براں کہ دارد با دلبرے وصالے

یعنی میں ہرگز کسی کے مال و منصب سے حسد نہیں کرتا مگر اس سے کہ جسے محبوب کا وصل حاصل ہے (ضرور حسد محسوس ہوتا ہے) ۔ گویا مال اور عہدہ ایسی چیز نہیں جو میرے لیے باعثِ حسد و رشک ہو مگر وصالِ یار ضرور ایسی چیز ہے۔یعنی سعدی کے نزدیک وصالِ یار مال و منصب سے بھی بڑھ کر ہے۔

اب اس شعرکو ذہن میں رکھ کر ایک دل چسپ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔ اس واقعے میں جن خاتون کا ذکر آرہا ہے اگر ان کا نام (یعنی ’’گوہر‘‘) بھی ذہن میں رہے اور’’ گوہر ‘‘(یعنی قیمتی پتھر) کے تعلق سے ’’آب‘‘ (چمک ، آب و تاب) نیز آبرو (آب اور رُو)کے مفہوم پر بھی غور کیا جائے تو لطف دوبالا ہوتا ہے ۔ نیزیہاں’’ مردِ خلیجِ فارس‘‘ کا ذکر ایک ایرانی کی نسبت سے آیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ کسی زمانے میںالہٰ آباد میں گوہر نام کی ایک طوائف بہت معروف تھی اور اس کے کئی امیدوار تھے۔ لیکن اس نے ایک روز اچانک ایک ایرانی سے شادی کرلی جس سے اس کے تمام عاشق سناٹے میں آگئے اور اس کی شادی کی خبر شہر بھر میں پھیل گئی۔ شاعرِ ظریف و طنّاز اکبر الہٰ آبادی کو لوگوں کا دل ٹوٹنے کی اطلاع ملی تو انھوں نے برجستہ سعدی کے مذکورہ بالا شعر کی تضمین کردی ،جو یہ ہے:

مردِ خلیجِ فارس گیسو ہیں جس کے کالے

گوہر نے آب اپنی کردی جسے حوالے

اس واقعے کو شاعر لفظوں میں کیسے ڈھالے

سعدی کا ہاں یہ مصرع لحنوں میں لا کے گا لے

ہر گز حسد نہ بُردم بر منصبے و مالے

اِلّا براں کہ دارد با دلبرے وصالے

……٭…٭…٭…٭……

نجم الغنی رام پوری نے اپنی کتاب ’’بحر الفصاحت ‘‘میں ایک تذکرے کا حوالہ د ے کر ایک دل چسپ واقعہ علم ِ عروض سے متعلق لکھا ہے( عروض وہ علم ہے جس سے شعر کا وزن معلوم ہوتا ہے)۔ واقعہ یہ ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں ایک شاعر نے قصیدہ پیش کرنا شروع کیا ۔ پہلا مصرع پڑھا :

اے تاج دولت بر سرت از ابتدا تا انتہا

جہانگیر نے پوچھا تُوعروض جانتا ہے؟ شعر کے وزن اور تقطیع سے واقف ہے؟ اس نے کہا میں ان چیزوں سے واقف نہیں ہوں۔ جہانگیر نے کہا اگر عروض جانتا ہوتا تو تیری گردن اُڑوادیتا ۔شاعر گھبرا گیا کہ کیا خطا ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا اگر اس کی تقطیع کریں تو اس کا وزن یوں ہوگا کہ

اے تاج دومستفعلن،لت برسرت مستفعلن

لت برسرت (یعنی تیرے سر پر لات ) فالِ بد ہے۔ شاعر کو ایسی چیزوں سے خبردار رہنا چاہیے۔

آج جمہوری دور میں بادشاہوں کو آپ لاکھ برا بھلا کہہ لیں لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ مغل بادشاہ کم از کم شعر و ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور علم وفن سے بھی واقف تھے۔

تازہ ترین