2017 میں سابق آئی جی سندھ، جناب اے ڈی خواجہ نے سندھ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے، ڈکیت گروہوں ، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کے لیے جدید کمپوٹر ٹیکنالوجی نظام متعارف کرایا تھا۔ لیکن جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوؤں نے بھی وارداتوں میں اپنی حکمت عملی تبدل کرکے جدید کمپیوٹر اور موبائل ٹیکنالوجی سے استفادہ شروع کردیا۔20اگست 2019 کو پولیس نے ڈکیتی کی وارداتوں میں مطلوب دو ملزمان ارسلان عرف چکنا اور فرحان عرف کوڈو کو گرفتارکیا ،جو مبینہ طور سے ڈکیتی کی وارداتوں کی سینچری مکمل کرچکے ہیں ۔ملزمان کے خلاف تھانہ عزیزآباد میں ڈکیتی کا مقدمہ درج ہے جس میں اس گروپ کا ایک رکن، کامران عرف ناکو کچھ عرصہ قبل گرفتار ہوا تھا اور باقی ملزمان فرار ہوگئے تھے۔ 20اگست کو ان دونوں ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی اور ان کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا۔دونوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا جس نے ریمانڈ پرانہیں جیل بھیج دیا۔
ڈی کیو ایم کے نام سے ان کی فلاحی تنظیم بھی کام کررہی ہے
مذکورہ ڈاکوؤں کی گرفتاری کے بعد حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے ہیں جن کے مطابق کراچی میں ڈاکوؤں کا واٹس ایپ گروپ سرگرم ہے جس نے خود کو ’’ڈکیت قومی موومنٹ ‘‘ کے نام سے منظم کر رکھا ہے۔ واٹس ایپ ڈکیت گروپ میں ارسلان اور فرحان کے علاوہ تقریباً 10 ملزمان شامل ہیں اور ارسلان اس گروپ کا ایڈمن ہے ۔ مذکورہ ڈاکو ہر واردات کی منصوبہ بندی واٹس ایپ گروپ میں کرتے ہیں اور ایک واردات میں چار سے پانچ ڈکیت شامل ہوتے ہیں۔ ’’ڈکیت قومی موومنٹ ‘‘کے نام سے تنظیم بنا کر اسٹریٹ کرمنلز کو منظم کرنے والے گروہ نے اپنے گروپ کے ممبران کی مدد کیلئے سرکاری اداروں کی طرز پرفلاح و بہبود کا نظام بھی بنایا ہوا ہے۔واٹس ایپ ڈکیت گروپ کے ارکان شہر کےمختلف علاقوں میں بینکوں سے رقوم لے کر نکلنے والے شہریوں سے لوٹ مار کرتے ہیں ۔ گرفتارملزمان نے عزیز آباد، ناظم آباد، نیو کراچی، میٹھادر، کھارادر، گارڈن اور بریگیڈ تھانوں کے علاقوں میں درجنوں وارداتیں کی تھیں۔ڈی کیو ایم گروہ یا واٹس ایپ گروپ کے ملزمان متعدد بار گرفتار ہوئے اور جیل بھی جا چکے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بذریعہ واٹس ایپ وارداتوں کے لیے بلواتے تھے تاکہ گرفتاری کے بعد’’ کال ڈیٹا ریکارڈ ‘‘کے ذریعے ان کا ریکارڈ پکڑا نہ جاسکے اور وہ گرفتاری سے بچ سکیں۔
واردات کے دوران گرفتاری اور زخمی ہونے کی صورت میں ’’ڈی کیوایم‘‘ کی جانب سے ان کی بھرپور اعانت کی جاتی ہے۔ گروہ کے گرفتار ساتھیوں کی قانونی اور زخمی ہونے والوں کی طبی امداد اور علاج معالجہ بھی واٹس ایپ گروپ یا ڈی کیو ایم کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ ملزمان کے مطابق واردات کرنے کے بعد جیل میں گروہ کےارکان کو کیس لڑنے کیلیے ان کے حصے کی رقم ان کے گھر اور جیل میں پہنچاتے ہیں۔اس سے قبل کامران عرف ناکوکی گرفتاری کے بعد اس کی ضمانت کے لیے وکیل کی فیس اور اہل خانہ کی مالی مدد کے لیے ڈی کیو ایم کی جانب سے رقم فراہم کی جارہی ہے۔ اس گروپ کا ایک ملزم شہباز گزشتہ دنوں ناظم آباد کے علاقے میں پولیس مقابلے میں زخمی ہونے کے بعد جب گرفتار ہوا تو اس کے علاج معالجےکا خرچہ بھی مذکورہ تنظیم کی جانب سے اٹھایا گیا۔ ڈی کیو ایم کےارکان متعدد بار گرفتار ہوئے اور جیل بھی جاچکے ہیں اور ان کی تنظیم کی جانب سے گرفتار شدگان کو قانونی معاونت فراہم کی گئی جب کہ ان کے اہل خانہ کی کفالت کے لیے رقوم بھی فراہم کی جاتی ہے۔ پولیس واٹس ایپ ڈکیت گروپ کے سرغنہ کے بیانات کی روشنی میں گروپ کے دیگر ارکان کی گرٹتاری کے لیے بھی چھاپے مارر رہی ہے۔
مئی 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں جدید ٹیکنالوجی کے حامل ایک بھتہ گروپ کی جانب سے بھتے کی وارداتوں میں واٹس ایپ کا استعمال سامنے آیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ،بھتہ خور واٹس ایپ پرتاجروں، کاروباری حضرات اور اہم شخصیات کو کال کرکے رقم ڈیجیٹل کرنسی میں رقم طلب کرتے تھے۔واٹس ایپ ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعدد اہم شخصیات سے بھتہ طلب کیا جا چکا ہے۔پاکستان میں ایک بٹ کوائن کی قیمت گیارہ لاکھ بتیس ہزار آٹھ سو پچاس روپےہے اور بھتہ خور بٹ کوائن میں ہی رقم طلب کرتےتھے۔اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے قبل بھتہ مافیا کی جانب سے لوگوں کو بھتے کی پرچی بھیجی جاتی تھیں، نہ دینے کی صورت میں مافیا کے ارکان کی جانب سے انتقامی کارروائیاں کی جاتی تھیں،لیکن سال 2018 میں ’’پرچی سسٹم‘‘ فرسودہ ہوگیا اور بھتہ خوری کا نیا نظام واٹس ایپ کی صورت میں سامنے آگیا۔ بھتہ مافیا کے خلاف لوگوں نے جب درخواستیں دیں تو ، متعلقہ اداروں کے پاس بھتہ خوروں کےخلاف درخواستوں کا ڈھیرلگ گیا۔ رپورٹ کے مطابق دس سے زائدارکان صوبائی اسمبلی کو بھی کالیں موصول ہوئی تھیں جبکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد الگ ہے۔ذرائع کا کہنا ہے میسج کرنے کے بعد واٹس ایپ پر ویڈیو کال سے بات کی جاتی تھی۔ اس مقصد کے لیے کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان کی مختلف شخصیات کومذکورہ مافیا کی جانب سے فون کیےگئے، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والےافراد کو دھمکیاں موصول ہوئیں لیکن ہر فون کال کے ساتھ ہی بھتہ خور کا نمبر تبدیل ہوجاتا تھا۔
فروری 2019 میں سکھر ریجن میں ڈاکوؤں کی جانب سے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں موبائل فون کی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا انکشاف ہوا تھا ۔ موبائل فون پر ’’کال وائس چینجر اپلیکیشن ‘‘(Call Voice Changer Application) کے ذریعے، خواتین کی آواز بنا کر اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے خاتمے کے لئے سکھر پولیس نے بھرپور انداز میں کارروائیاں کیں۔ اس سلسلے میں پولیس نے بھی جدید موبائل ٹریکنگ سسٹم کا استعمال کرکے کندھ کوٹ ایٹ کشمور سے اغوا کیے گئے 8 افراد کو ڈاکوئوں کے چنگل سے آزاد کرایا تھا ، جو نسونی آواز کے جھانسے میں آکر، ڈاکوئوں کے چنگل میں پھنس گئے تھے۔