میر انیس
آج شبیر پہ کیا عالم ِتنہائی ہے
ظلم کی چاند پہ زہرا کے گھٹا چھائی ہے
اُس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے
یاں نہ بیٹا نہ بھتیجا نہ کوئی بھائی ہے
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں
مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں
زخمی بازو ہیں، کمر خم ہے، بدن میں نہیں تاب
ڈگمگاتے ہیں، نکل جاتی ہے قدموں سے رکاب
پیاس کا غلبہ ہے، لب خشک ہیں، آنکھیں پُر آب
تیغ سے دیتے ہیں ہر وار کا اعدا کو جواب
شدّتِ ضعف میں، جس جا پہ ٹھہر جاتے ہیں
سینکڑوں تیرستم ِتن سے گزر جاتے ہیں
گیسو آلودہء خوں لپٹے ہیں رُخساروں سے
شانے کٹ کٹ کے لٹک آتے ہیں تلواروں سے
تیر پیوست ہیں خوں بہتا ہے سوفاروں سے،
لاکھ آفت میں ہے اِک جان دل آزاروں سے
فکر ہے سجدۂ معبود میں سر دینے کی
وار سے تیغوں کی فُرصت نہیں دم لینے کی
برچھی آکر کوئی پہلو پہ لگاجاتا ہے
مارتا ہے کوئی نیزہ تو غش آجاتا ہے
بڑھتے ہیں زخمِ بدن، زور گھٹا جاتا ہے
بند آنکھیں ہیں، سرِ پاک جھکا جاتا ہے
گرد زہرا و علی گریہ کناں پھرتے ہیں
چرخ سے آگ برستی ہے، زمیں جلتی ہے
مارے گرمی کے زباں خُشک ہے، لوُ چلتی ہے
کہتے ہیں ظالموں سے خُشک زباں دکھلا کر
بہرِ حق پانی کا اک جام پلا دو لاکر
یہ سُخن سُن کے بھی غصہ نہیں فرماتے ہیں
یاس سے سوئے فلک دیکھ کے رہ جاتے ہیں
عرض کرتے ہیں یہ خالق سے کہ اے رب غفور
تُو ہے عالم کہ نہیں کچھ ترے بندے کا قصُور
کرتے ہیں یہ مجھے بےجرم و خطا تیغوں سے چُور
ہاتھ اُمت پہ اُٹھانا نہیں مجھ کو منظور
جانتے ہیں کہ محمد کا نواسا ہوں میں
پانی دیتے نہیں دو روز کا پیاسا ہوں میں