چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے خلاف ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے اہم نکات اٹھائے ہیں چنانچہ اعلیٰ عدالت نے الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست سماعت کے لئے منظور کرلی ہے ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی تقرری کو چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں جس طرح الیکشن کمیشن کے اراکین کا انتخاب عمل میں لایا جاتا رہا ہے تو پھر آج اس طریقہ کار کوکیوں نہیں اپنایا گیا۔ ہم نے ہر اچھی روایت، ہر اچھے سلسلہ کو بند کر دیاہے، قانون کی حکمرانی صر ف ان عوام پر ہے جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ قانون ہر بڑے انسان کے آگے بے بس ہی نہیں بلکہ لاچار ہوجاتا ہے۔ کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ کل تک جو ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ چلنے کوتیار نہیں تھے۔ آج ان کے گھر بار بار جا رہے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں کہ جنہوں نے زندگی بھر گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ اب دیکھنا ہے کہ بار بار بار جانے والے کہیں ڈاکٹر طاہر القادری کو کیش نہ کرا جائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص نے ملک کے آئین کے اندر ان تمام باتوں پر عوام کی توجہ دلائی ہے اور ایک عام پاکستانی کو بتایا ہے کہ آئین میں عوام کے حقوق و فرائض، ریاست کی اور پارلیمینٹ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور کیا طریقہ کار ہے؟تو اس میں انہوں نے کیا غلط کیا ہے؟ جب اعلیٰ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے نکات جن پر انہوں نے عدالت کو سماعت کے لئے درخواست دی ہے، وہ درست ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ الیکشن قریب ہیں اس کیس کی جلد سے جلد سماعت کرکے فیصلہ دینا چاہئے اور جو سیاسی پارٹیاں آج ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز کو درست سمجھ رہی ہیں تو وہ کس بات کی دیر کر رہی ہیں؟
ہمارے ہاں ایک عجیب روایت ہے کہ جب کھیر پک کر تیار ہوجاتی ہے تو کھانے کے لئے سب آجاتے ہیں، کھیر پکانے کے عمل میں کوئی شریک نہیں ہوتا۔ بابا رحمان ملک ویسے تو ہر بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے وہ بھی ان نکات کے بارے میں ثابت کریں کہ یہ غلط ہیں، بابا جی سے کراچی تو سنبھالا جاتا نہیں اور لگے ہیں شاہ رخ خان کو پاکستان بلانے۔دہلی سے شائع ہونے والے ہندی اخبار ”راشٹریہ سہارا“ نے لکھا ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اداکار شا رخ خان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اخبار لکھتا ہے کہ رحمان ملک اپنے بڑبولے پن کے لئے خاصی شہرت رکھتے ہیں، اپنے دورہ ہند کے موقع پر بھی انہوں نے ایسی باتیں کہی تھیں جو نا صرف نامناسب تھیں بلکہ دونوں ملکوں میں فاصلہ کم کرنے کی بجائے فاصلہ بڑھانے کا سبب بن سکتی تھیں انہوں نے شاہ رخ خان کو تحفظ دینے کا حکومت ہند کو مشورہ دیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں تحفظ اپنے ملک کی ایک معصوم اور نوخیز بچی ملالہ کو دینا چاہئے تھا۔ رحمان ملک کا یہ کہنا ہے کہ کراچی ہاتھ سے جا رہا ہے کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ خود اپنے ملک کے ایک شہربلکہ شہر قائد کے بارے میں ایسا کہہ رہا ہے تو پھر وہ کس بات کے وزیر داخلہ ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے میٹرو بس کیا بنائی، وفاقی حکومت کو فوراً شاہدرہ سے کوٹ لکھپت تک شٹل ٹرین سروس شروع کرنے کا خیال آگیا ، ارے بھائی انگریزوں کے زمانے میں لاہور میں بھی اسی قسم کی ایک ٹرین سروس تھی، جس کا روٹ کچھ یوں تھا شاہدرہ، پھر بادامی باغ اسٹیشن، پھر لاہور کا مین اسٹیشن، پھر میاں میر اسٹیشن، پھر والٹن اسٹیشن، پھر کوٹ لکھپت اور پھر رائے ونڈ اسٹیشن، جبکہ جلو موڑ پر دومنہ والا ڈبہ چلتا تھا۔اگر وفاقی حکومت کو عوام کا اتنا ہی درد تھا تو پانچ برس کے دوران یہ شٹل سروس کیوں نہ شروع کی گئی۔ ایک طرف ریلوے ، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ڈوب چکا ہے تو دوسری طرف شٹل ٹرین چلائی جا رہی ہے روزانہ بیسیوں ٹرینیں لیٹ، انجن خراب، ڈبوں میں لائٹ اور پنکھے نہیں۔ آپ کسی بھی ریلوے کراسنگ پر کھڑے ہو جائیں۔ آپ کو ٹرینوں کی حالت دیکھ کر رونا آئے گا۔
آج کل بے شمار سیاسی پارٹیاں عوام کی قسمت بدلنے کے دعوے کر رہی ہیں۔ پورے ملک میں جگہ جگہ بینرز اور پوسٹرز لگے ہوئے ہیں، اب قوم کی قسمت جاگے گی اور مجھے دسمبر اور جنوری کی شدید سرد راتوں میں لاہور ڈیفنس کے باہر ایک ریسٹورنٹ کے باہر وہ چار پانچ سال کا بچہ یاد آرہا ہے جو آج بھی وہاں موجود ہے۔ جس کا قد بڑی گاڑیوں کے بونٹ سے بھی چھوٹا ہے وہ کھانا کھانے کے لئے آنے والی ایلیٹ کلاس جو انتہائی قیمتی گاڑیوں میں(جو صرف اس پاکستان کی وجہ سے) بیٹھی ہوتی ہے وہ بچہ اس ہوٹل کے بیروں اور ویٹروں کو بلا بلا کر لاتا ہے اور یہ سلسلہ رات بھر جاری رہتا ہے۔ 65برسوں میں عوام کی قسمت بدلنے والوں کی صرف اور صرف اپنی قسمت ہی جاگی ہے اس بچے کے ساتھ ہوٹل کے ویٹر اور گاہک دونوں حقارت سے بات کرتے ہیں یہ چار پانچ سال کا بچہ اس ملک کا مستقبل ہے۔ انہی بے انصافیوں کے خلاف تو طاہر القادری نے آواز اٹھائی ہے پروفیسر ممتاز حسن صحیح کہتے ہیں یہ ملک نہ ہوتا تو ہم کبھی نامور ڈاکٹرز نہ بنتے بلکہ کہیں منشی ہوتے بڑے بڑے بینرز پر اپنی تصاویر لگا کر یہ کہتے ہیں کہ عوام کی قسمت بدلیں گے؟ جن کے بچے ہنی مون منانے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں۔ جن کی شادیوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ان کی قسمت تو اپنی جاگی ہوتی ہے عوام کی قسمت تو ان لوگوں نے کب کی سلا دی ہے۔ اتنا کچھ کمانے کے بعد بھی دل نہیں بھرتا۔
توشہر کے ان بڑے بڑے نامور پیروں، فقیروں کے پاس جاتے ہیں ان سے دعائیں کراتے ہیں کیا ابھی بھی انہیں ضرورت ہے؟ ایک بہت بڑی روحانی شخصیت کے پاس ایک بڑے سیاسی لیڈر اپنی دولت اور اپنے بچے کے داخلے کے لئے کسی غیرملکی یونیورسٹی میں دعاکرارہے تھے، کبھی ان صاحب نے یہ سوچاہے کہ جس حلقے سے انہیں منتخب کیا گیا ہے۔ وہاں بھی بڑے بڑے غریب بچے ہیں ،تعلیم حاصل کرنا ان کا بھی حق ہے۔ ان کیلئے بھی دعا کرادیں عملاً تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ کیسے لوگ ہیں خود تو پیروں کے پاؤں میں بیٹھتے ہیں اور لوگوں کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں اور عوام کے گودڈوں میں بیٹھ گئے ہیں۔
حامد میر کے پروگرام میں انوشہ رحمان ایم این اے (ن لیگ) نے حامد میر کے سوال پر سچ ہی تو کہا ہے ایک غریب ماسٹر کی کیا اپروچ کہ وہ ایم این اے تک جاسکے۔ یہ ایک منتخب نمائندہ نے کہا ہے اس ملک میں سب سے ذلیل و خوار بھی ماسٹر ہو رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ بے چارہ ماسٹر ہے ”اس نے کیا کرنا ہے“؟ ہمارا سکول ماسٹر مردم شماری کرتا ہے آٹا تقسیم کرتا ہے۔ الیکشن ڈیوٹی کرتا ہے کوئی بھی آفت آئے توان کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے۔ پچھلے کئی روز سے ینگ ڈاکٹروں نے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے اور ان کے لیڈرز یہ نعرہ ہائے مستانہ اب لگاتے ہیں کہ یہ سب کچھ وہ غریبوں کے لئے کر رہے ہیں۔ چونکہ ڈاکٹرز بھی اب سیاسی لیڈر بن چکے ہیں لیکن بھائی یہ بتاؤ کہ غریب مریضوں کے لئے تم نے کون سی پالیسی بنائی ہے؟ اس کے نکات تو سامنے لاؤ۔ اگر واقعی تمہیں غریب مریضوں کا اتنا ہی درد ہے تو تم لوگ بھی غریب مریضوں کے لئے ایک رٹ داخل کر دو پھر دیکھو کہ کس طرح غریب مریض تمہارا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ جنگ تو صرف اور صرف اپنے مفادات کے لئے لڑ رہے ہو یا کسی کے کہنے پر لڑ رہے ہو۔ غریب مریض تو کہیں بھی نہیں۔
دوسری طرف پولیس نے ہڑتالی ینگ لیڈی ڈاکٹروں کے خلاف کچھ زیادہ ہی سخت ایکشن لیا اور ان کی بے حرمتی کی ہے جو قابل مذمت ہے۔ اس سلسلے میں مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کو ضرور ان پولیس والوں سے باز پرس کرنی چاہئے۔