• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امام مدینہ حضرت امام مالک فرماتے ہیں۔
”میں نے ہوش سنبھالا تو مغنیوں کے پیچھے لگ گیا اور ان سے گانا سیکھنا شروع کر دیا ایک روز میری والدہ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ”بیٹا گویا اگر بدصورت ہو تو لوگ اس کے گانے کی طرف توجہ نہیں دیتے لہٰذا تم یہ ہنر سیکھنا چھوڑ و اسکی بجائے علم و فقہ کی طرف توجہ کرو کیونکہ فقہ کے ساتھ بدصورتی کچھ نقصان نہیں کرتی یہ بات میری سمجھ میں آگئی میں نے گویوں کا پیچھا چھوڑا اور فقہا کے پیچھے لگ گیا۔ تاآنکہ خدا نے مجھے اس مرتبہ پر پہنچا دیا جہاں تم آج مجھے دیکھ رہے ہو“
(کتاب الاغانی 4ص39)
ابوالفرح لکھتا ہے۔
ابن سریج، غریض۔ معید اور حنین ہمعصر تھے اور بڑے شہرہ آفاق فنکار تھے اول الذکر تینوں حجاز میں تھے اور حنین عراق میں تھا ان تینوں نے حنین کو لکھاہم تین ہیں اس لئے التماس ہے کہ آپ ہی تکلیف کریں اور ہمارے پاس آئیں حنین نے دعوت قبول کی چاروں گویوں کو اکٹھا سکینہ (خیال رہے کہ یہ سکینہ بنت امام حسین) کا ذکر ہو رہا ہے) کے مکان پر اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا لوگ انبوہ درانبوہ جمع ہو گئے اذن عام تھا اسلئے صحن بھر گیا اور لوگ چھت پر چڑھ گئے چھت بوجھ نہ سہار سکی اور گر پڑی سوئے اتفاق کہ مہمان مغنی حنین ہی دب کر مر گیا۔“
(کتاب الاغانی ج2ص123)
یہ مصنف آگے چل کر لکھتا ہے۔
”وہ بھی دور تھا کہ گانے والوں اور گانے والیوں سے صرف حجاز میں جمیلہ بیتbeetطولیتی بردالفوائد Burd.ul.Foaad الضحیٰ نومہ، معید، مالک نافع، عزة المیلا، جبار، سلامہ، بلبلہ، لذة العیش۔ سعیدہ اور زرقاء وغیر جیسے بے مثال فنکار موجود تھے لوگ کہتے ہیں یہ سب لوگ حج کرنے آئے تھے تو مکہ میں سعید بن مسجع ابن سریج (Sareej) عریض اور ابن محرز کی ملاقات ہوئی اور مکہ کے نوجوان مرد اور خواتین انکا حسن و جمال دیکھنے شہر سے باہر نکل آئے تھے“
(الاغانی ج 7ص128)
ذرا آگے چل کر ایک منظر لکھاہے
لوگ جمیلہ کے پاس جمع تھے وہ اپنی کنیزوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی تھی اس نے ستار چھیڑا تو اس کی کنیزوں نے بھی ستار بجانے شروع کر دئیے پچاس ستار ایک ساتھ بجے تو گھر میں جیسے زلزلہ آگیا ہو پھر جمیلہ نے عود پر اپنا گیت چھیڑااور کنیزیں ساز بجانے لگیں“
(ایضا ج 7ص231)
خلفائے بنو امیہ کے دور میں شاہی محلات کے موسیقار تقریبا سب کے سب حجازی تھے تاریخ نگار اکثر متعجب ہوتے ہیں کہ عراق تو ایران اور روم کی ثقافتوں کا امین تھا وہاں موسیقی کا وہ فروغ نہیں تھا۔ جیسا حجاز میں رہا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عراق کے فقہاء پر انکی آبائی خشک مذہبیت کا وہی غلبہ ہوا جو انہوں نے وہاں کے احبار ور رہبان میں دیکھا تھا۔ انکے برعکس حجاز کے فقہا میں سیر چشمی اور کشادہ ظرفی تھی عبداللہ بن عتبہ مدینہ کے سات معروف فقہا میں سے تھے مگر بھرپور ظریفانہ شاعری کرتے تھے۔ داؤد ثقفی کا بیان ہے کہ ہم ابن جریح کے حلقہ درس میں بیٹھے تھے وہ ہم سے احادیث بیان کر رہے تھے ان کے پاس بڑے بڑے علماء بیٹھے تھے جن میں عبداللہ بن المبارک اور کئی دوسرے فقہاء اور محدثین بیٹھے تھے۔
اچانک سامنے سے مشہور مغنی ابن میزان کا گزر ہوا ابن جریح نے اسے بلایا اور کہا”بھیا کچھ گانا تو سناؤ“ابن میزان نے معذرت کی کہ اس وقت بہت جلدی میں ہوں مگر بن جریح نہ مانے اور برابر اصرار کرتے رہے آخر اس نے گانا سنایا اور کہنے لگا۔ اگر آپ کے پاس یہ بوجھل لوگ نہ بیٹھے ہوتے تو میں دیر تک بیٹھا رہتا اور آپ کا شوق پورا کر کے اٹھتا ابن جریح ان فقہا کی طرف متوجہ ہو کر پوچھنے لگے”کیاتم لوگوں کو میرا یہ فعل پسند نہیں آیا”وہ کہنے لگے”واقعی ہم اسے عراق میں ناپسندیدہ اور مکروہ سمجھتے ہیں“ ابن جریح نے کہا ”اور رجز اور حدی کو؟“ انہوں نے کہا”ان میں ہم کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے“ابن جریح نے کہا”آخر حدی و رجز اور غنا میں کیافرق ہے“
(ایضا ًج۱ص 157)
ایک اور جگہ یہ مصنف لکھتے ہیں
عبداللہ ن عمر رمی کا بیان ہے کہ میں حج کے ارادہ سے آمادہ سفر ہوا راستے میں ایک عورت کو دیکھا جو عجیب شہوت انگیز حرکات کرتی جارہی تھی میں نے اپنی اونٹنی اس کے قریب کی اور کہا”اللہ کی بندی تو حج کرنے جارہی ہے اور اللہ سے ڈرتی نہیں “ اس پر اس عورت نے چہرہ موڑ کر میری طرف دیکھا اس کا چہرہ آفتاب کی طرح روشن تھا کہنے گی۔ چچا میاں غور تو کیجئے میں ان عورتوں میں سے ہوں جنکے متعلق ایک عرب شاعر نے کہا تھا۔
من اللئی لم یحجن یبغین حسبہ
ولکن لیقتلن البدی المغفل
ترجمہ:۔(وہ ان عورتوں میں سے ہے جو ثواب کے لئے حج نہیں کرتی وہ تو اس لئے حج پر جاتی ہیں کہ کسی سادہ دل معصوم کو قتل کر دیں)
عبداللہ کہتے ہیں میں نے کہا”میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ایسے خوبصورت چہرے کو عذاب نہ دے “
یہ بات کسی نے مفتی مدینہ سعید المسہیب کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا”اگر کوئی عراقی تنگ نظر اور تنگ مزاج ہوتا تو اس سے کہتا”دور ہو خدا تیرا ستیا ناس کرے لیکن وہ حجاز کازاہدی تھا کہ اس حدتک بھی اس کی خوش مزاجی باقی رہی“
(ایضا ج 7ص121)
اسلام دین ہے اور دین کی حیثیت سے اسے اپنے
اصول عزیز ہیں ان اصولوں پر تو وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا لیکن بدلتی ہوئی تمدنی جرئیات میں جن سے اصولوں کو نقصان نہ پہنچے وہ مصلحتوں کا خیال رکھتا ہے۔
ہندوستان میں اسلام کی اشاعت تصوف کی اور بالخصوص تصوف کے چشتیہ مشرب و مسلک کی مرہون احسان ہے ان لوگوں کے نزدیک قوالی کا سازوں کے ساتھ گایا جانا اچھا فعل ہے بشرطیکہ قوال اچھا اور پاکیزہ کلام گارہے ہوں۔
حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش موسیقی کے متعلق فرماتے ہیں”جو شخص کہے مجھے خوشگوار آواز و نغمہ و ترنم اچھے نہیں لگتے وہ جھوٹ بولتا ہے یا منافق ہے یا اس میں حس لطیف بالکل ہی مفقود ہے ایسا آدمی اپنی بے حسی اور کورذوقی کے باعث جانوروں اور چوپایوں سے بدتر ہے(کشف المجوب اردو ترجمہ عبدالرحمن طا ر ق ص335) پروفیسر قاضی جاوید لکھتے ہیں ”خواجہ معین الدین چشتی موسیقی کو روحانی ارتقا کے لئے ناگزیر تصور کرتے ہیں۔
(برصغیر میں مسلم فکر کا ارتقا ص 25)
ہمارے خشک فقہاء کبھی ساز پر کبھی آواز پر لڑتے رہے کہتے رہے غنا حرام ہے جب کہا گیا خوش الحانی سے تو قرآن بھی پڑھا جاتا ہے اور نعت بھی تو کہا گیا کہ سازوں کے ساتھ گانا حرام ے مگر چشتیہ مشرب کے صوفیوں نے کہا آواز بھی اور ساز بھی سب جائز ہیں بلکہ کلام والفاظ بھی کہ حافظ شیرازی کی رندی وبادہ پرستی کو اہل صفا شراب معرفت کی سرمستی سے تعبیر کرلیاکرتے ہیں صرف نیت جائز یاناجائز ہے اگر قاری قرآن بھی اس نیت سے خوش الحافی سے پڑھتا ہے کہ عورتیں سن کرریجھ جائینگی اور اس کے قریب آجائینگی اور وہ ان سے عشق لڑائیگا تو اس کی قرآن خوانی بھی اس کے گناہ میں شامل ہو جائیگی۔ مثنوی معنوی لکھنے والے مولانا جلال الدین رومی (جنہیں اقبال پیررومی کہتا ہے) سے منسوب فرقہ جلالیہ موسیقی پر رقص بھی کرتا ہے۔ یہاں شادی بیاہ کے موقع پر عورتیں گانے بجانے سے لطف اندوز ہوتی ہیں رقص بھی کرتی ہیں معاشرہ بھی برداشت کرتا ہے اور مولوی اور مولانا بھی۔ کیونکہ فطرت پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔
ہمارا زاہد خشک قرآن حکیم کی جس قرات پر وجد میں آجاتا ہے اس میں بھی موسیقی کی لے نَے ناشیدہ کی طرح ارتعاش انگیز ہوتی ہے ہمارے ہاں حجازی اور مصری دو قرآتیں زیادہ مقبول اور مروج ہیں ان میں سے ایک بھیروں راگ میں ہے اور ایک بھیرویں میں۔
موسیقی کی کتنی دھنیں اور شاعری کی کتنی بحریں خواجہ امیر خسرو نے بنائیں اور وہ اپنی ہر اختراع کی منظوری حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الاولیا سے لیتے تھے۔
خواجہ فرید الدین گنج شکر کے سامنے جب ایک مولوی صاحب نے چشتیہ مشرب کے بزرگوں کے رقص وجد وسماع اور جلالیہ کے رقص پر اعتراض کئے تو خواجہ صاحب نے فرمایا”مولانا غنائے طیور اور رقص طاؤس کے متعلق بھی کوئی فتویٰ ارشاد فرمائیں۔
تازہ ترین