• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب اچھا ہے مگر...

سب اچھا ہے مگر نئے نرخناموں کی شکل اتنی بُری کہ غریب آدمی کو زندگی سے بَری کر دے کیونکہ عوام جینے کا مقدمہ ہارنے لگے ہیں، اور تو اور سرکار کی دکانوں نے بھی نئی مہنگائی متعارف کرا دی ہے ،آس امید میں بھی گرانی کی چاشنی؎

کشمیریوں کا دکھ، اشیا کی گرانی، موت کی ارزانی

دو دن کی زندگی میں بھلا کیا کرے کوئی

قومی یکجہتی بظاہر تو ایک صفحے پر مگر اندر کے خلفشار سے دفاع پاکستان کو خطرات لاحق، گورننس اتنی اچھی کہ انسان دشمن کا بھی کیا بگاڑ ے، کبھی تھانوں کو روتے ہیں، کبھی یہ روتے ہیں کہ سارا کشمیر جیل بنا دیا گیا ہے۔ گویا پاکستان، بھارت ایک پیج پر ہیں، ایسا نیا پاکستان زیر تعمیر کہ مزدور کو مزدوری نہیں ملتی، ادارے خسارے کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، نیچے فکر معاش کی جنگ اوپر جنگ کے بادل، ایک برستی ہے دوسری گرجتی، تھانے اور اسکول کا ایک ہی نصاب، زندگی نری حساب کتاب، یہ تو اچھا ہے کہ قبر سے کوئی واپس نہیں آتا ورنہ وہ کہانیاں کون سن کر زندہ رہتا، اخلاقیات پہلے اور معاشیات بعد میں تباہ ہوتی ہے، کھانے کا تیل تک پھینکنے کا تیل ہے، کیا یہاں اب بھی تلوں میں تیل ہے، جو پولیس کو بُرا کہتا ہے وہ رشوت، سفارش سے اپنا کام نکال کر پولیس پر تبرا پڑھتا ہے، بیسیوں بار کہا ہے سلامت پورہ لاہور میں مافیا کوڑا جلاتا ہے، وزارت اعلیٰ میں جنبش پیدا نہیں ہوتی، ہاں یہ سنا ہے اجلاس ہر روز ہوتے ہیں اس لئے کہ امید رہے اور کام چلے۔

٭٭٭٭

بلڈ پریشر کم کرنے کی خبریں کہاں ہیں

جنازے، پوسٹ مارٹم، تشدد، بچوں سے جنسی زیادتیاں، ملاوٹ والی اشیائے خوردنی، منہ زور مہنگائی، اخلاقی زوال، اسکول تھانے ایک پیج پر، یہ ہیں وہ خبریں جو ہر روز دیکھنے پڑھنے کو ملتی ہیں، کوئی ایسی خبر نہیں آتی کہ بلڈ پریشر کم ہو، ہونٹوں پر مسکراہٹ آئے،

جن اشعار سے دور بھاگتے تھے کہ خوف طاری کر دیتے ہیں اب وہی ہم پر فٹ بیٹھتے ہیں، ایک چینل پر ایک شعر سونے سے پہلے سننے کو ہر روز ملتا ہے کہ سونے والے ذرا دھیان سے سو کیا پتہ صبح ہو نہ ہو، غالبؔ سے معذرت کے ساتھ؎

جب موت کا ایک دن معین ہے

نیند جی بھر کے آنی چاہئے

جبری مجرموں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اور اس کا بڑا سبب معاشی تنگی کا جبر ہے، انسان خوشحال ہو تو محفوظ انداز کا گناہ بھی کر لیتا ہے، اور چاہے تو خوب نیکیاں بھی کما لیتا ہے، اب تو حقیقت یہ ہے کہ ’’شکم خالی را شیطان می گھیرند‘‘ (خالی پیٹ میں شیطان بسیرا کرتے ہیں) ضروریات زندگی پوری ہوں تو حسن اخلاق پیدا ہوتا ہے، وہ تمام لوگ جو راتوں رات امیر ہوتے ہیں ایک دن سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سلاخوں کے پیچھے فقیر ہوتے ہیں، عجب ملک ہے غضب لوگ ہیں، بس ایک بات کی تسلی ہے کہ کم از کم مسلمان تو ہیں، بت پرست نہیں البتہ بت شکن ہیں یہ الگ بات کہ جو بت ہم توڑتے ہیں وکھری ٹائپ کے ہوتے ہیں خیال ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

٭٭٭٭

زبانی اور عملی شکر

خدا جھوٹ نہ بلوائے ہمیں تو زبانی شکر اور عملی شکر میں فقط عملی فرق نظر آتا ہے، جس سے پوچھو کیا حال ہے کہتا ہے شکر ہے، مگر اس کی عملی زندگی میں ناشکری ہی ناشکری دکھائی دیتی ہے، کچھ نہ پا کر بھی شکر ادا کرنا شکوہ نہ کرنا ہی شکوہِ شکر ہے، اور مالک و خالق ذرا سے صبر و شکر کے بعد سارے واجبات ادا کر دیتا ہے، یہ سب باتیں میں اپنی تسلی کے لئے لکھ رہا ہوں اگر کوئی اور بھی اس سے فائدہ اٹھا لے تو یہ صدقہ جاریہ ہے، ممکن ہے بروز قیامت میرے کام آ جائے، یہ دنیا ایک ایسا عجوبہ ڈِش ہے جس میں بیک وقت جنت دوزخ کا ذائقہ آتا ہے، شکر دراصل محرومی میں شکوہ شکایت نہ کرنے کو کہتے ہیں، زبانی عبادت، صبر، شکر، احسان بہت آسان ہے، لیکن عملی طور پر یہ تمام نیکیاں انجام دینا ہم پر بار ہوتا ہے، پاکستان کی قدر و قیمت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے یوم دفاع پر ہم نے اس کا بھرپور اظہار دیکھا مگر اسے روز افزوں مہنگائی گہنا دیتی ہے، ہم نے ایک نہایت عظیم ناشکرا دیکھا، جس کا نام شکور تھا، شکور مبالغے کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ شکر ادا کرنے والا، ایسی صورت ہی میں کہا جاتا ہے: ’’برعکس نامِ زنگی نہند کا فور (اُلٹا، حبشی کا نام کافور رکھ دیا جبکہ کافور انتہائی سفید ہوتا ہے) کچھ لوگ کہتے ہیں یہ دنیا کمرئہ امتحان ہے، اگر یہ سچ ہے تو ہمارے ہاں بوٹی عام ہے، ہر قسم کی برائی، بوٹی ہے، نگران اس کمرئہ امتحان کے ہمارے کاندھوں پر بیٹھے ہوتے ہیں، مارکنگ میں ہمارے ہر پرچے پر 0/100لکھا ہو گا، پھر کسی کسی کو جنت میں اور اللہ معاف کرے اکثر کو دوزخ میں داخل کیا جائے گا، الغرض یہ دنیا دو نمبر جنت اور دو نمبر دوزخ ہے، فیڈ بیک ضرور دیں۔

تازہ ترین