• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں مچھلیوں کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ مچھلیاں میرے بارے میں جانتی ہیں ۔تاہم ایک بات جو اس لذیذ سمندری مخلوق سے متعلق میں نے کہیں پڑھی تھی، وہ ذہن سے چپک کر رہ گئی ۔بعض زہریلی مچھلیوں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کے جسم پر نوکدار کانٹے ہوتے ہیں،ان مچھلیوں کو جب کوئی دوسری مچھلی کھاتی ہے تو وہ اس کے زہر سے خود بھی مر جاتی ہے لہٰذا شریف مچھلیاں ان زہریلی مچھلیوں کوکھانے کی کوشش نہیں کرتیں ۔لیکن کچھ مچھلیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو دیکھنے میں بالکل ان زہریلی مچھلیوں کی طرح لگتی ہیں اور ان کے جسم پر بھی اسی طرح نوکدار کانٹے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ زہریلی نہیں ہوتیں۔مگر شریف مچھلیاں ان کو بھی زہریلا سمجھ کر avoid کرتی ہیں حالانکہ یہ مچھلیاں صرف زہریلی مچھلیوں کی نقل ہوتی ہیں،اصل نہیں۔ تکنیکی زبان میں ا سے isomorphic mimicryکہا جاتا ہے ۔ مچھلیوں کی طرح ہم انسانوں میں بھی چند جعلی اقسام پائی جاتی ہیں۔یہ وہ انسان ہوتے ہیں جو اپنی وضع قطع اور چال ڈھال سے کسی ایک مخصوص طبقے کے فرد لگتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا اس طبقے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یوں ہم ساری عمر مغالطے میں رہتے ہوئے۔ انہیں اسی مخصوص طبقے کے فرد کے طور پر ٹریٹ کرتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔کیسے؟
فرض کریں کہ آپ کسی ایسے افریقی ملک کے باشندے ہیں جہاں کسی قسم کی کوئی پولیس نہیں ہے بلکہ ایک مافیا ہے جو لوگوں سے بھتہ خوری کرتا ہے ۔جس جگہ بھی قتل، چوری یا ڈکیتی کی کوئی واردات ہوتی ہے ،مافیا کے ممبران وہاں پہنچ جاتے ہیں ،تفتیش کے بعد ملزم کا تعین کرتے ہیں اور پھر جرائم کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے مدعی یا ملزم بھتہ وصول کرتے ہیں۔اس مافیا کا پورا ایک نیٹ ورک ہے ،یہ لوگ مخصوص قسم کے کپڑے پہنتے ہیں جو ایک طرح سے ان کی وردی ہے ،ان کے ہاں افسری اور ماتحتی کے اصول رائج ہیں ۔ہر شہر میں ان کی موجودگی ہے اوران کے اڈے ایسے ہیں جیسے ریاست کے تھانے ہوتے ہیں ۔یہ لوگ گلی محلوں میں ناکے لگاتے ہیں او ر ان کا حکم بھی ایسے ہی چلتا ہے جیسے یہ سچ مچ کی پولیس ہو۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے ۔عوام مافیا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مافیا کا قلع قمع کر کے انہیں اس سے عفریت نجات دلائے ۔عوام کی تحریک اس قدر طاقت ور ہوتی ہے کہ حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور مہذب ممالک کی طرح اپنے ملک میں ایک باقاعدہ پولیس فورس کی بنیاد ڈالتی ہے ۔اس پولیس فورس میں معاشرے کے ستائے ہوئے طبقات میں سے افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے ،انہیں معقول تنخواہ،سہولیات ،جدید اسلحہ اورپیشہ وارانہ تربیت دی جا تی ہے اور اس مافیا سے نمٹنے کا پورا اختیار دیا جاتا ہے۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں پولیس فورس چند ماہ میں ملک سے مافیا کا خاتمہ کر دیتی ہے ۔
اب چند منٹ کے لئے اس افریقی ملک کو اس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور اپنے پیارے دیس پاکستان میں واپس آتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک منظم پولیس فورس موجود ہے ،اس کے پاس اسلحہ ہے ،جیپیں ،گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہیں،اربوں روپے کا بجٹ ہے ،لاکھوں کی نفری ہے ،ملک کے کونے کونے میں تھانے ہیں ،اس کی وردی کی خاص دہشت ہے،اس کا اپنا ڈسپلن ہے جس میں ماتحت افسر کے سامنے چوں بھی نہیں کر سکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پولیس کو ریاست اور قانون کی طاقت حاصل ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پولیس بدمعاشوں،بھتہ خوروں اور مافیا ممبران کا خاتمہ نہیں کر پاتی؟وجہ نہایت دلچسپ ہے۔ جب بھی ہمارے ہاں تھانہ کلچر تبدیل کرنے کی بات ہوتی ہے تو تان یہاں آ کر ٹوٹتی ہے کہ پولیس کی کار کردگی بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کو مزید بجٹ دیا جائے ،ان کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے،ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔لیکن نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے ،ڈھاک کے تین پات۔کیوں؟کیونکہ ہم اب تک یہ حقیقت قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوئے کہ ہماری پولیس فورس دراصل قانون کی وردی میں ملبوس ویسا ہی طاقت ور مافیا بن چکی ہے جیسا اس تخیلاتی افریقی ملک میں تھا ۔چونکہ اس فرضی افریقی ملک میں حکومت نے یہ ادراک کر لیا تھا کہ اس مافیا کو جڑ سے اکھاڑ ے بغیر کام نہیں چلے گا لہٰذا انہوں نے اس کے مقابل ایک منظم اور قانونی پولیس فورس کھڑ ی کی جس نے مافیا کا خاتمہ کر دیا ۔دوسری طرف ہم جسے پولیس سمجھ رہے ہیں وہ دراصل مافیا ہے جس نے پولیس کی وردی پہن رکھی ہے۔اسے آپ ریاستی اداروں کی isomorphic mimicryکہہ سکتے ہیں۔اب جب بھی پولیس اصلاحات کے نام پر اس کا بجٹ، سہولیات یا اختیارات بڑھائے جاتے ہیں ، یہ پولیس مافیا مزید طاقتور ہو جاتا ہے اور نتیجے میں قانون شکنی بڑھ جاتی ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی کہ اگر اس تخیلاتی افریقی ریاست میں حکومت ایک نئی پولیس فورس کھڑی کرنے کی بجائے اسی مافیا میں اصلاحات متعارف کروا دیتی اور نتیجے میں مافیا کو جدید اسلحہ مل جاتا تو الٹا مافیا مزید طاقت ور ہو جاتا اور عوام اور زیادہ پس جاتے۔تو ثابت کیا ہوا؟ ثابت یہ ہوا کہ ہمارے ملک کے جو ادارے ناکارہ ہو چکے ہیں ان میں اصلاحات سے کام نہیں چلے گا کیونکہ ان اداروں میں اصلاحات کرنے کا مطلب در حقیقت ان کی کرپشن اور نالائقی کوطول دینے کے مترادف ہو گا ۔
کیا وجہ ہے کہ موٹر وے پولیس کی کارکردگی ،ڈسپلن اور شہرت عام پولیس کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے جبکہ موٹر وے پویس میں کام کرنے والے اور موٹر وے پر سفر کرنے والے اسی ملک کے شہری ہیں جوعام حالات میں (موٹر وے سے باہر) خاصی نا معقولیت کا مظاہرہ شروع کر تے ہیں ؟اس لئے کہ موٹر وے پولیس عام پولیس میں اصلاحات کے نتیجے میں وجود میں نہیں لائی گئی تھی بلکہ یہ بالکل نئی فورس تشکیل دی گئی تھی جہاں کے اصول و ضوابط، تنخواہیں ،چیک اینڈ بیلنس اور احتساب کا نظام ”zero tolerance“ کی پالیسی پر مبنی تھا اور عام پولیس کی طرح فرسودہ دیمک زدہ نہیں تھا۔چنانچہ جو افراد عا م پولیس سے موٹر وے پولیس میں گئے ،وہاں جاتے ہی بندے کے پُتّر بن گئے اور انہوں نے شہریوں کو بھی تیر کی طرح سیدھا کر دیا۔دوسری مثال 1122ریسکیو سروس کی ہے۔ حکومت نے سول ڈیفنس ،فائر بریگیڈ یا ناکار ہ ایمبولنسوں کے دیگر اداروں میں اصلاحات کرنے کی بجائے ایک نئی اوربین الاقوامی معیار کی سروس تشکیل دی،جدید ترین ایمبولنسز درآمد کی گئیں ،ادارے میں نئے ملازمین کو بھرتی کیا گیا،انہیں خصوصی تربیت دی گئی،مناسب بجٹ مختص کیا گیا اور نتیجہ نکلا کامیابی کی صورت میں۔
ترقی پذیر ممالک کی طرح ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی نقل کرتے ہوئے گورننس کے وہ ماڈل یہاں رائج کرنا چاہتے ہیں جو ان ممالک میں کامیابی سے چل رہے ہیں لیکن ایسا کرتے وقت یہ بھول جاتے کہ ہم ان ممالک کی طرح ترقی یافتہ نہیں ہیں ۔جیسے کوئی شخص نہرو طرز کی ٹوپی پہن لینے سے نہرو نہیں بن سکتا ،بالکل اسی طرح فقط ترقی یافتہ ممالک کے ماڈل نقل کرنے سے ترقی پذیر ممالک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں ترقیاتی کاموں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود حقیقی ترقی نہیں ہو پاتی کیونکہ حکومت ہر سال انہی ناکارہ اداروں کو اربوں روپوں کا بجٹ دیتی ہے جو خود خرابی کی جڑ ہیں۔در حقیقت یہ جعلی انسانوں کے جعلی ادار ے ہیں،یہی isomorphic mimicryہے۔
نوٹ: Isomorphic Mimicryکا بنیادی خیال ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر Lant Pritchetکا ہے ۔
تازہ ترین