• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ سے صدارتی خطاب کے دوران جس سیاسی عدمِ متانت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا، اُس سے دُنیا کو کشمیریوں کے جمہوری حقوق کے سوال پر جو منفی پیغام گیا اُس سے چھ زیرِ حراست اراکینِ قومی اسمبلی کے بطور رُکن استحقاق کا احترام کرتے ہوئے بچا جا سکتا تھا۔ ایسی بھی کیا انا ہے جسے اپوزیشن رہنمائوں کی پارلیمنٹ ہائوس میں موجودگی گوارا نہیں۔

اس سے بھی بدتر مظاہرہ جمعہ کے روز مظفر آباد میں وزیراعظم کے جلسہ کے دوران نظر آیا جو کسی بھی اعتبار سے کشمیریوں کی بدترین حالتِ زار پہ احساسِ ہمدردی اور انسانی یکجہتی کے جذبات سے عاری دِکھا۔

شدتِ جذبات تو دُور کی بات، کسی چہرے پہ غصہ تھا نہ ملال، بس ایک شادمانی سی شادمانی تھی۔

بھلا مزاحمتی، مذمتی اور یکجہتی کے جلسے جلوس ایسے ہوتے ہیں اور ایسے میں وزیراعظم کا یہ دعویٰ کہ کبھی کسی نے اُن کی طرح مسئلہ کشمیر اُٹھایا تھا؟ اِس پر اندھیرے میں دُور کی سوجھنے کی کوئی کیا پھبتی کسے؟ اگر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر پر ہی ٹرخایا جانا تھا تو اس کامیڈی شو کی کیا ضرورت تھی۔

اوپر سے شیخ رشید کے پائو، آدھ پائو کے جوہری گولوں کے بطور جنگی ہتھیار استعمال سے لے کر مظفرآباد میں وزیراعظم کی موجودگی میں ’’بھارت میں گھاس اُگے گی، نہ زندگی کے آثار ملیں گے‘‘ کی غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بڑھکیں دُنیا کو کیا پیغام بھیج رہی ہیں؟ اس نیوکلیئر بلیک میل میں دُنیا آنے سے رہی کہ اپنی تباہی سے بچنے کے لئے کشمیر پاکستان کی جھولی میں ڈال دے۔ اُلٹا کہیں یہ نہ ہو جائے کہ دُنیا پاکستان کے جوہری پروگرام کے پیچھے پڑ جائے۔

طفلانہ سیاست اور بڑھک بازی کی سفارت کاری کے قحط الرجال ماحول میں اگر کسی نے دیر سے سہی متانت بھری اور بردبارانہ (Statesmanlike) گفتگو کی ہے تو وہ 2019-20 کے عدالتی سال کے موقع پر چیف جسٹس جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کا خطاب تھا۔

لگتا ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب اپنی عدلیہ کی سربراہی کے آخری مہینوں میں وہ سب کچھ کہہ گئے ہیں جو ہر کسی کے دل میں تو ہے، زبان پہ آنے سے گریزاں۔

یکطرفہ اور منتقمانہ احتساب کے بارے میں زبان زد عام سیاسی انجینئرنگ کے تاثر کو نظامِ عدل اور ریاستی اداروں کی غیرجانبداری کے لئے زہرِ قاتل قرار دیتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے اس تاثر کو ختم کرنے اور اسے قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی پُرزور تاکید کی ہے۔

چیف جسٹس صاحب نے نظامِ حکمرانی میں عوام کی منشا کے سکڑنے پہ جس گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، وہ موجودہ بے ڈھنگے (Hybrid) سیاسی انتظام کے آئین و جمہور کی حکمرانی کے حال و مستقبل کے لئے خطرناک مضمرات کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔

پے در پے مارشل لائوں کی غیرآئینی و غیرجمہوری تیرگیوں کے بعد وقفے وقفے سے جو جمہوری وقفے ملے بھی تو وہ بے بس و لاچار رہے اور جس جمہوری عبور کو سیاستدانوں نے گزشتہ عشرے میں صبر سے جاری رکھنے کی سعی کی بھی تو وہ ان کیلئے تلخ ثابت ہوا۔ دو سابقہ حکومتوں کے وزرائے اعظم کو گھر جانا پڑا تھا۔

اپنی بحالی کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جس طرح منتخب حکومت کو بے دست و پا اور معیشت کو برباد کیا اور بعد ازاں بابے رحمتے کی رحمتوں کے فیض سے مملکتِ خداداد ابھی تک فیضیاب ہورہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس کھوسہ نے غیر متعلقہ معاملات میں عدالتی سرعت مداخلت کو لگام دی اور انصاف کے عمل پر بھرپور توجہ دے کر سائیلین کی مصیبتیں اور عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ کم کیا۔

جسٹس کھوسہ نے عدلیہ کے آرٹیکل 184(3)کے حوالے سے بے جا مداخلت کاری کے حوالے سے پھر کہا ہے کہ فل کورٹ سوو موٹو کے اختیارات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کا تعین کرے۔

یقیناً انسانی حقوق کے حوالے سے آئین کی یہ دفعہ شہریوں کے انسانی حقوق کی داد رسی کیلئے نہایت ضروری ہے لیکن یہ انسانی حقوق کی بازیابی کیلئے کم کام آئی اور انتظامیہ کی زمین پہ قبضہ گیری کیلئے زیادہ استعمال ہوئی۔ اگر اس دفعہ کی انسانی حقوق کے تحفظ کے مرکزی خیال پہ توجہ دی گئی ہوتی تو جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا اور ہمارے بہت سے علاقے اور لوگ اپنے دائمی حقوق سے محروم نہ رہتے۔

چیف جسٹس صاحب نے میری صحافی برادری کے لبوں پر لگی مہروں کا ذکر کر کے حقِ اظہار کی حرمت کو بحال کرنے کی جو دہائی دی ہے، وہ اس ملک کی صحت مندانہ ذہنی و فکری اور علمی نشوونما اور جمہوری کلچر کے فروغ کیلئے اشد ضروری ہے۔

حقِ اظہار پہ بندشیں اور میڈیا پہ سنسر شپ قوم کے ضمیر کو سُلادینے کے مترادف ہے۔

ہم مودی کی بھارت کو سیکولر جمہوریہ کے بجائے ہندو راشٹریہ بنانے اور کشمیریوں کو قید خانے میں بند کرنے اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا شور مچاتے نہیں تھکتے، لیکن انسانی حقوق اور مذہبی و لسانی و نسلیاتی اقلیتوں کے حوالے سے ہمارے اپنے استحقاق (Credentials) کیا ہیں؟ کشمیر کے مظلوم عوام کے حقِ خود ارادیت اور انسانی و شہری حقوق کیلئے کی جانیوالی جدوجہد کیلئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق پہ ہمارا اپنا دامن بھی صاف ہو۔

انسانی حقوق کی عالمی کونسل میں 58ملکوں کے اعلامیہ میں بھارت سے مقبوضہ ریاست میں کرفیو کے خاتمے، طاقت کے عدم استعمال، کشمیریوں کے شہری و انسانی حقوق کی بحالی، ذرائع ابلاغ سے پابندیوں کے خاتمے اور لوگوں کے چننے کے حق کی حمایت میں کی گئی ہے جو کہ کشمیریوں کی جمہوری جدوجہد کی ایک اہم فتح ہے۔

آج برصغیر کو جس مذہبی انتہاپسند فسطائیت اور جنگی جنونیت کا سامنا ہے، وہ ایک مشترک جمہوری امن تحریک کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ جوہری قیامت کی دہائیاں دے کر دُنیا کو بلیک میل کیا جائے۔ فتح آخر جمہوری اور امن دوست قوتوں کی ہوگی۔

تازہ ترین