• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹرز، نرسیں اور مریض تینوں ایک تکون (مثلث) کے تین کونے ہیں۔ اگر مریض نہیں تو ڈاکٹر اور نرس کی ضرورت نہیں اور اگر مریض ہے، ڈاکٹر اور نرس نہیں تو پھر علاج کا تصور نہیں، سو ان تینوں کا آپس میں چولی دا من کا ساتھ ہے۔ ہمارے معاشرے میں نرسنگ اور مڈ وائف دونوں شعبوں کو شروع ہی سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ نرسنگ کا شعبہ شروع دورِ اسلام سے ہی ہے۔ کئی اسلامی جنگوں میں خواتین نے مسلمان مجاہدوں کو پانی پلایا، ان کی مرہم پٹی کی، خدمت کا یہ جذبہ اور سلسلہ تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ ویسے تو اس شعبے کا باقاعدہ آغاز فلورنس نائٹ انگیل نے 1860ء میں کیا تھا۔ آج پوری دنیا میں کوئی ملک اور اسپتال ایسا نہیں جہاں پر نرسنگ کے مقدس شعبے سے وابستہ خواتین اور بعض جگہ پر میل نرس نہ ہوں۔ ہمارے کراچی شہر میں مرد نرس بھی ہیں، وہ علیحدہ بات ہے کہ کراچی میں اسپتالوں کے حالات بہت ابتر اور خراب ہیں۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ جب فلورنس نائٹ انگیل نے اس شعبے میں جانے کا فیصلہ کیا تو انہیں گھر اور معاشرے کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، ہر شعبے میں ’’روشن خیالی‘‘ آ چکی ہے۔ اس روشن خیالی کے باوجود آج بھی ہماری نرسیں کئی طرح کے ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ مختلف عالمی رپورٹوں کے مطابق نرسوں سے ڈاکٹرز، مریض، مریض کے لواحقین کے علاوہ ان کی اپنی ساتھی نرسیں بھی بدسلوکی کرتی ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر تو مرض کی تشخیص، علاج اور ادویات تجویز کرنے کے بعد چلا جاتا ہے اس کے بعد مریض کا سارا انحصار نرس پر ہوتا ہے۔ کس وقت دوائی، کتنی مقدار میں دینی ہے، آکسیجن سلنڈر کام کر رہا ہے، وینٹی لیٹر اور دل کے مانیٹرز صحیح طرح کام کر رہے ہیں، مریض کو کتنے گھنٹے سلانا ہے، کون سی غذا دینی ہے، کب واک کرانی ہے، یہ سب کچھ نرس کا کام ہوتا ہے۔

نرسوں سے مریضوں اور ڈاکٹرز دونوں کو شکایات رہتی ہیں لیکن کسی نے آج تک نرسوں کے حقوق کے بارے میں بات نہیں کی۔ ہمارے ملک میں کئی سرکاری اسپتالوں میں اس نوعیت کے واقعات ہو چکے ہیں کہ ڈاکٹر نے نرس کو تھپڑ مارا، مریض کے لواحقین نے نرس سے مارپیٹ کی، کئی کئی گھنٹے کام کرنے کے باوجود کوئی اضافی سہولت نہیں دی جاتی۔ بعض پرائیویٹ اسپتالوں میں تو نرسوں کے ساتھ بہت ہتک آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے اور لمبی لمبی ڈیوٹیاں کرائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں نرسوں کے حقوق اور اس شعبے میں بہتری لانے کے لئے بے شمار تنظیمیں اور رفاہی ادارے سرگرم ہیں۔

دنیا میں نرسوں کے حقوق کے لئے سب سے قدیم ترین تنظیم آئی سی این (انٹرنیشنل کونسل فار نرسز) ہے جو 1889ء سے کام کر رہی ہے۔ دنیا کے ایک 130ممالک کی ایک کروڑ نرسیں اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔ یہ تنظیم نرسوں کے ضابطہ اخلاق اور معاشی ترقی کے لئے کام کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں نرسوں کا نصاب بہتر کیا جائے اور عملی تربیت کا دورانیہ بڑھا جائے۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی طرح انہیں بھی پریکٹس کی اجازت دی جائے۔ یوکے اور امریکہ میں ایسی نرسوں کو اسسٹنٹ ڈاکٹر اور اسسٹنٹ سرجن بھی کہا جاتا ہے۔ ایف جے ایم یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر عامر زمان نے حال ہی میں اپنے قدیم ترین نرسنگ اسکول کا درجہ بڑھا کر اسے کالج آف نرسنگ کر دیا ہے جو ایک خوش آئند قدم ہے۔

پاکستان میں نرسنگ کی تعلیم و تربیت کے ادارے بہت کم ہیں۔ اس طرح مڈ وائف جو کہ شعبہ صحت اور ماں اور بچے کی صحت اور ڈلیوری کے حوالے سے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں، کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مڈ وائف کی تعلیم و تربیت کے مزید ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بعض سرکاری اسپتالوں میں ایک نرس دس سے بیس مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہے جو بین الاقوامی معیار اور اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان میں اس وقت 83ہزار خواتین نرسنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں صرف ایک ایم بی بی ایس لڑکی کئی سال پہلے آئی جس نے ڈاکٹری چھوڑ کر نرسنگ جوائن کر لی تھی۔

پچھلے مہینے فرسٹ ایڈ کا عالمی دن منایا گیا۔ پنجاب ایمرجنسی سروس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پانچ لاکھ افراد کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دی اور 73لاکھ لوگوں کو فرسٹ ایڈ مہیا کی۔ ہم بھی بڑے کمال کے لوگ ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال اور دیگر سرکاری اسکولوں میں فرسٹ ایڈ اور سول ڈیفنس کی تربیت حاصل کرنا لازمی تھا۔ پھر کبھی جے سی سی اور این سی سی بھی رہی۔ 1965ء کی جنگ کے بعد سرکاری اسکولوں میں باقاعدہ فرسٹ ایڈ اور سول ڈیفنس کی عملی تربیت دی جاتی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور تک این سی سی پر بھی بڑا زور رہا بلکہ جو اسٹوڈنٹس این سی سی کرتے تھے ان کو اضافی بیس نمبر ملا کرتے تھے۔ پھر کسی عقلمند نے یہ این سی سی بند کرا دی۔ پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جو شدید کشیدگی چل رہی ہے ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسکولوں میں فرسٹ ایڈ اور سول ڈیفنس کی تربیت لازمی کر دی جائے۔ ہر اسکول میں فرسٹ ایڈ روم لازمی ہونا چاہئے۔ ویسے بھی اسکولوں میں جب کسی طالب علم کی طبیعت خراب ہو جائے تو اس کو فرسٹ ایڈ دی جاتی ہے۔ کسی زمانے میں کوئین میری کالج میں 10بستر کا ایک چھوٹا سا اسپتال ہوا کرتا تھا۔ جن تعلیمی اداروں میں ہوسٹل ہوں، وہاں لازمی چھوٹا سا اسپتال ہونا چاہئے جیسے پنجاب یونیورسٹی میں ایک میڈیکل سنٹر ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فرسٹ ایڈ یا سول ڈیفنس کے عالمی دن منانے کے بجائے کوئی عملی اقدام بھی کرے۔ اسکولوں میں فرسٹ ایڈ تربیت دے تاکہ ہر طالب علم کو پتا ہو کہ کسی بھی ایمرجنسی میں اس کوکیا کرنا ہے۔

تازہ ترین