کبھی کراچی واقعی کراچی ہوا کرتا تھا، روشنیوں کاشہر کہلاتا تھا جبکہ اب کراچی کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، روشنیاں تو کب کی گل ہو چکیں، جانے کب سویرا ہوگا۔
پانی بجلی غائب اور کوڑے کرکٹ کےڈھیروں نے ہرطرف ڈیرے جما لیے ہیں، کراچی آج بھی ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے والا شہر اور تجارتی حب ہے۔
بیرون ملک ہو یا اندرون ملک، ساری تجارت کا اہم ذریعہ کراچی ہی ہے۔ یہ شہر کبھی شہر آرزو ہوا کرتا تھا، لوگ دبئی جانے کے بجائے کراچی آنے کو فوقیت دیتے تھے مگر اب ایسا معلوم ہورہا ہے کہ لوگ کراچی بدر ہورہے ہیں، اب یہ شہر مسائلستان بن گیا ہے۔
یہاں صفائی، پانی، ٹریفک جام، سڑکوں، تجاوزات کے نام پر لاکھوں افراد کو بےروزگار کرنے، اسٹریٹ کرائم اور گندے پانی کی نکاسی کا مسئلہ ہے، آخر اچانک یہ تمام مسئلے ایک ساتھ کیوں نمودار ہوگئے، چند برس پہلے تو یہی شہر روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا پھر ایک دم خون آشام کیسےبن گیا۔
کراچی کی جملہ آبادی پورے ملک کی آبادی کا تیئس فیصد ہے، ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کا کوئی پرسانِ حال نہیں، حکومت بلدیہ کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے اور بلدیہ حکومت کو کہ وہ فنڈجاری نہیں کررہی، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہے، یوں کوئی کام نہ ہو رہا ہے نہ ہونے دیا جا رہا ہے، ایم کیو ایم لاکھ بدنام سہی، اس کے دور میں جتنی بدامنی بدمعاملگی کی گئی ہو گی کہ جس کے الزامات آج کے حکمران لگا رہے ہیں اس کے باوجود کراچی شہر کو تمام شہری سہولتیں میسر تھیں، تھوڑی دیر کو پیپلزپارٹی کی حکومت کے تمام الزامات کو اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی ان لوگوں نے عوامی مسائل کے اتنے ڈھیر تو نہیں لگائے تھے۔
صفائی ستھرائی، پانی کی فراہمی اور نکاسی ہو یا سڑکوں کی مرمت اور بحالی، یہ کام تو ہورہے تھے، وہ اگر تھوڑا کھاتے تھے تو تھوڑا لگاتے بھی تھے۔ یہاں تو ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے لگایا کچھ نہیں جا رہا پھر بھی انگلیاں دوسروں کی طرف اُٹھائی جارہی ہیں کوئی کراچی کا پُرسان حال نہیں۔
گزشتہ ماہ ایک اعلیٰ صحافتی تنظیم کے وفد کو صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب نےچائے پر بلایا تھا تو میں نے خصوصی طور پر اُن کے گوش گزار کیا تھا کہ جناب آپ کراچی سے منتخب ہوئے ہیں، کراچی آپ کی خصوصی توجہ کا طالب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میں پورے پاکستان کا صدر ہوں، اس پر میں نے گزارش کی تھی کہ جناب کراچی تو آپ کا بھی شہر ہے۔ اس پرانہوں نے کہا اچھا دیکھیں گے۔
کراچی کسی ایک جماعت کسی ایک قوم کا شہر نہیں ہے یہ دراصل منی پاکستان ہے۔
یہاں ہر قوم کے پورے پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگ رہتے بستے ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر سارے پاکستان کا نمائندہ شہر ہے، حکومتِ وقت میں اس شہر کے نمائندے موجود ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی مفادات کی جنگ نے اس شہر کو شہر غریباں بنا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، شہر میں جس طرف بھی نکلو بدبو کے بھبکے استقبال کرتےہیں، کوڑے کرکٹ کے انبار لگے ہوئے ہیں، جو بلدیہ کراچی اور سندھ حکومت کو منہ چڑا رہے ہیں، جانے کب اس شہر پر آشوب کی قسمت بدلےگی۔
دراصل کراچی ایک نہیں چھ شہروں کا ایک شہر ہے ایک مرکزی اور پانچ ذیلی بلدیاتی ادارے ہیں اس طرح کراچی پانچ شہروں کا شہر ہے اس کے بلدیاتی مسائل اس لئے بھی زیادہ ہیں، حکومت کے ارکان کی خواہش ہوتی ہے کہ بلدیہ کے فنڈ اُن کے توسط سے جاری کئے جائیں، جبکہ ایم کیو ایم جو بلدیاتی اداروں پر حاوی ہے، چاہتی ہے کہ ہمارے فنڈز ہمیں براہ راست ملنے چاہئیں۔
تمام متعلقہ ارکان کراچی شہر کے مفادات سے کہیں زیادہ ذاتی مفادات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے فنڈز جاری ہونے میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔
کراچی میں ہرروز جمع ہونے والا کچرا اتنا زیادہ اسلئے بھی ہے کہ یہ ایک نہیں پانچ شہروں کا کچرا ہوتا ہے جو اگر ہر روز بھی اُٹھایا جائے تو پورا نہیں اٹھ سکتا کیونکہ نہ افرادی قوت اورنہ ہی کوڑا اُٹھانے والی گاڑیاں ہیں۔ بات پھر گھوم پھر کر فنڈز کی کمی پر آجاتی ہے، جب تک بلدیاتی اداروں کو خود مختار نہیں کیا جائے گا انھیں مطلوبہ فنڈز جاری نہیں کیے جاتے یہ شہر اسی طرح بے یارومدد گار رہے گا، مسائل اسی طرح بڑ ھتے جائیں گے۔
اللہ حکمرانوں کےدلوں میں اس شہر غریباں کے لئے درد پیدا کرے تاکہ کراچی کی رونقیں بحال ہوسکیں، اللہ کرے کہ ایسا ہوجائے۔ آمین!