پاکستان کرکٹ بورڈ نے نئے ڈومیسٹک کرکٹ نظام میں کھلاڑیوں کو پرکشش معاوضے دینے کے بلند و بانگ دعوے کئے تھے۔
البتہ 14اکتوبر سے شروع ہونے والے چھ ٹیموں کا دوسرا راؤنڈ اب ختم ہونے کو ہے، لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ بورڈ کی جانب سے دئیے جانے والے 16صفحات پر مشتمل اس کنڑیکٹ پر تاحال دستخط کی چڑیا بٹھانے کے حوالے سے کھلاڑی تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
50ہزار ماہانہ دے کر “ پی سی بی” کھلاڑیوں سے سانس لینے کی بھی اجازت کا بول رہا ہے، ایک کھلاڑی نے بھرائی ہوئی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے، مجھ سے کہا کہ گھر میں بوڑھے والدین ہیں ، ان کی دوائیوں کا خرچہ ہے، بچے اسکول جاتے ہیں ، گھر کے روز مرہ کے اخراجات ہیں ، گاڑی کے پیڑول کا خرچہ ہے، یہ سب کچھ کیسے چلے گا؟
یہ سب ماہانہ 50ہزار میں، جبکہ 75ہزار میچ فیس کے ساڑھے سات لاکھ روپے تب ہی ملیں گے، جب پورے دس میچ کھیلے جائیں گے۔
صورت حال یہ ہے کہ بورڈ نے کھلاڑیوں کو بھیجے گئے ڈومیسٹک سینٹرل کنٹریکٹ میں سخت اور سمجھ میں نہ آنے والی شقیں شامل کر کے کھلاڑیوں کو کنڑیکٹ پر دستخط کرنے سے قبل محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بالخصوص پاکستان سے کھیلنے والے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹرز جو بورڈ کے موجودہ سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ نہیں ہیں اور جو ابھی تک اپنے محکموں میں ٹیم ختم ہونے کے باوجود ملازم ہیں، ان کے لئے چند لاکھ روپے اپنی مستقل ملازمت کے آگے کوئی معنی اور حیثیت نہیں رکھتے۔
جہاں انھیں پرکشش تنخواہ کیساتھ میڈیکل کی سہولت اور مستقل روزگار کی فکر لاحق نہیں جب کہ بورڈ کا ڈومیسٹک کنٹریکٹ ایک ہوائی روزی کے مترادف ہے، ایسی صورت حال میں کچھ کرکٹرز نے اس کنڑیکٹ پر دستخط نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جبکہ کچھ کا موقف ہے کہ کرکٹ کے لئے ڈیلی الاؤنس پر ہی کام چلا سکتے ہیں، البتہ کنڑیکٹ پر دستخط انتہائی نا ممکن ہوگا، اطلاعات ہیں کہ کھلاڑیوں کے اس لائحہ عمل کے سامنے بورڈ میں پیشہ ورانہ انداز میں نظام لانے کی بات کرنے والے چیف ایگزیکیٹو وسیم خان اور چئیر مین احسان مانی مصالحت کی پالیسی اپناتے ہوئے، ممکن ہے کہ ’’یو ٹرن“ لیں۔
اس بارے میں ’’ پی سی بی “ کے ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی اور ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہارون رشید سے صورت حال کی وضاحت کی بابت رابطے کی کوشش کی گئی، تاہم دونوں اشخاص فون پر معلومات کی فراہمی کے لئے دستیاب نہ ہو سکے۔