(موجودہ حالات پر ہوشیار خان اور پریشان خان میں ایک دلچسپ مکالمہ ہوا جس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے)
پریشان خان۔ حالات بہتر نہیں ہو رہے، معیشت ٹھیک نہیں ہو رہی، طرز حکمرانی میں تبدیلی نہیں آرہی، کیا ایسے ہی چلتا رہے گا؟
ہوشیار خان۔ اجتماعی غلطی ہو گئی۔ اب ہم بند کمرے سے کیسے نکلیں۔
پریشان خان۔ غلطی کیسے ہو گئی؟ طاقتوروں اور عقلمندوں نےپہلے تجزیے کئے ہوں گے، مثبت منفی دونوں پہلو زیر بحث آئے ہوں گے، پھر غلطی کیسے؟
ہوشیار خان۔ جب یہ آیا تو اس وقت عوامی جذبات بھی یہی تھے، ہر کوئی چاہتا تھا کہ اسے موقع ملنا چاہئے، خیال تھا کہ یہ ضرور کچھ کر کے دکھائے گا۔
پریشان خان۔ اِس کے لئے کچھ زیادہ ہی محنت لگادی، اِسے توقع سے زیادہ طاقت مل گئی۔
ہوشیار خان۔ نہیں ایسا بھی نہیں۔ حالات ہی ایسے بن گئے تھے، ایک کو عدالت نکال چکی تھی اور دوسرے کی شہرت خراب تھی، ان دونوں کو تو اقتدار دوبارہ مل نہیں سکتا تھا اس لئے یہی بہترین چوائس تھا۔
پریشان خان۔ اب ہوا کیا ہے؟
ہوشیار خان۔ یہ ایماندار ہے، شفاف ہے مگر سمجھ دار نہیں ہے، ملک کو سنبھال نہیں پا رہا۔
پریشان خان۔ مگر اب تو سارے ایک صفحے پر ہیں ہر بات پر صلاح مشورہ ہوتا ہے۔
ہوشیار خان۔ یہ درست ہے طاقتورتو اس کے سارے مشورے مان رہے ہیں مگر وہ اُن کے سارے مشورے نہیں مان رہا۔
پریشان خان۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، یقین نہیں آتا۔
ہوشیار خان۔ سچ یہی ہےکہ طاقتور بزکش اور محمود سرحدی کو ہٹانے کا کئی دفعہ کہہ چکے ہیں مگر وہ نہیں مانتا، اب تو لوگوں کی یہ امید بھی دم توڑ رہی ہے کہ پنجاب میں گورننس بہتر ہو سکتی ہے۔ جب سے اس نے بزکش کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کئی بیورو کریٹس مایوس ہو گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کے 12کروڑ عوام کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں؟
پریشان خان۔ ہر ہفتے کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے، کئی گھنٹے جاری رہتا ہے تو کیا اس میں فیصلے نہیں ہو پاتے۔
ہوشیار خان (قہقہہ لگاتے ہوئے) میٹنگ کے ایجنڈے پر صرف 15منٹ بات ہوتی ہے پھر کوئی نہ کوئی احتساب اور کرپشن کا ذکر لے آتا ہے اور یوں میٹنگ کا باقی حصہ اسی موضوع پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ایجنڈے کے باقی آئٹمز زیر بحث ہی نہیں آ پاتے۔
پریشان خان۔ اگر یہ اجتماعی غلطی ہے تو پھر اس کا کفارہ کیسے ادا ہو گا؟
ہوشیار خان۔ یہ ہر بات پر بھڑک اٹھتا ہے، غلطی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی تو یہ بھڑک سکتا ہے جس سے بنے بنائے نظام کو نقصان پہنچے گا۔
پریشان خان۔ سیانے لوگ کہتے ہیں دو ہی صورتیں بچتی ہیں یا تو اس کی مرضی سے، بہلا پھسلا کر، چہرہ بدل دیا جائے، اسے اور بڑا بنا کر اس کے اختیارات لے لئے جائیں۔ دوسرا آسان طریقہ پارلیمان کے اندر سے نئے قائد کا انتخاب ہے چند ووٹوں کی اکثریت ہے، تھوڑا دبائو پڑا تو تبدیلی لانا مشکل نہیں ہو گا۔
ہوشیار خان۔ تبدیلی تو کبھی بھی مشکل نہیں ہوتی، اس بار تو بہت آسان ہے۔ اس کی پارٹی کے ارکان کی اکثریت تو اسے چھوڑ دے گی۔ تیس، پینتیس فیصد البتہ اس کے ساتھ رہ جائیں گے۔
پریشان خان۔ یہ نہ ہو کہ اس بار تبدیلی لانے سے ایک نیا طبقہ باغی بن جائے، ابھی بھٹو اور شریف کے حامی ریاست کے لگائے ہوئے زخم سہلا رہے ہیں، ایک اور زخمی طبقہ باغی ہو گیا تو معاشرے میں چیخ و پکار بڑھ جائے گی۔
ہوشیار خان۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ نون لیگ کا ووٹ بینک برقرار ہے، اس کے لوگ فلور کراسنگ کر نہیں سکتے کہ اس سے وہ ڈی سیٹ ہو جائیں گے، ایسے میں نون لیگ کا ورق مکمل طور پر پھاڑنا آسان نہیں ہے۔
پریشان خان۔ نواز شریف تو ویسے بھی شاید آئندہ وزیراعظم کے امیدوار نہ بنیں، نہ ہی آصف زرداری کا ایسا کوئی ارادہ نظر آ رہا ہے۔ دونوں کی صحت بھی اس کی اجازت نہیں دیتی۔
ہوشیار خان۔ ظاہر ہے کہ اب مستقبل کے منظر نامے پر نظر رکھنا ہو گی اور دیکھنا ہو گا کہ شطرنج کی اگلی بساط کیسے سجے گی۔ قومی مفاد سب سے اہم ہے، چہرے آتے جاتے رہتے ہیں، جو بھی ہو ملک و قوم کے مفاد میں ہونا چاہئے۔
پریشان خان۔ موجودہ پارلیمان میں 50کے قریب اراکین قومی اسمبلی ایسے ہیں جن کی عمریں 40سال سے کم ہیں، وہی ملک کا مستقبل ہیں، کیا ہم ان کی تربیت نہیں کر سکتے؟ کیا ہم ان کو اچھا طرزِ حکمرانی نہیں سکھا سکتے؟ اگر یہ لوگ تیار کئے جائیں تو شاید آنے والے دن ہمارے لئے بہتر ثابت ہوں۔
ہوشیار خان۔ نوجوان نسل سے ہی ہماری امیدیں وابستہ ہیں اور وہی ہمارے شاندار مستقبل کی ضامن ہے۔ یوتھ نے پچھلے انتخابات میں اس کو حکومت دلانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اب نوجوان بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ معاشی حالت سنبھل نہیں رہی، بیروزگاری پر توجہ نہیں دی جا رہی، لگ یوں رہا ہے کہ اس کی حمایت تیزی سے کم ہوئی ہے، ووٹ بینک بھی سکڑ گیا ہوگا۔ لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں پہلے ہی نون لیگ کی اکثریت تھی، فیصل آباد سے اس بار نون لیگ ہاری تھی کیونکہ کھڈیاں بند تھیں، صنعتوں کی صورتحال خراب تھی لیکن لگتا ہے وہاں بھی اب پھر سے نون طاقتور ہو گئی ہو گی۔
پریشان خان۔ اسکے حا می کم ضرور ہوئے ہیں مگر ختم نہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ تبدیلی لانے کی کوشش ہوئی تو وہ پھر اس کی صفوں میں آکھڑے ہوں گے۔
ہوشیار خان۔ وہ بھی حکومت چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اس کو بس اتنا ہی شوق تھا کہ سب سے بڑا عہدہ حاصل کرے، وہ شوق اس نے پوراکر لیا۔ اسے کہا جائے تو شاید وہ خود ہی عزت سے ہٹ جائے۔
پریشان خان۔ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ کوئی چھوڑنا نہیں چاہتا، جو چھوڑ جاتا ہے یا نکال دیا جاتا ہے وہ بھی تاعمر وزیراعظم ہی کہلاتا ہے۔ اس عہدے کا بہت نشہ ہے، عوامی طاقت اپنے بھرپور روپ میں صرف اسی عہدے میں نظر آتی ہے۔
ہوشیار خان۔ ریاست زیادہ دیر گومگو میں نہیں رہ سکتی۔ کافی ہو گیا، اگلے دو تین ماہ میں حالات نہ سدھرے تو تبدیلی کے حالات بن جائیں گے، نہ چاہتے ہوئے بھی ریاست کو اقدامات کرنا پڑیں گے۔
پریشان خان۔ گویا اس سال کچھ نہیں ہو گا؟
ہوشیار خان۔ ’’میلہ چار دناں دا‘‘۔ اس سال تو معاملہ ایسے ہی جاری رہے گا، البتہ اگلے کے آغازہی سے تبدیلی کا ماحول بننا شروع ہو جائے گا اب پتا نہیں مکمل تبدیلی میں کتنا وقت لگے گا۔