• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات تو ساری دنیا کو معلوم ہے کہ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جارہے۔ کبھی کوئی خاتون یا کوئی مرد، چھپر اسکول میں بچے پڑھانا شروع کرتا ہے۔ وہ کتنی لمبی چھلانگ لگا سکتا ہے کہ بچوں کو ہائی اسکول داخل کرا دے ابھی تک بارش کے قطروں کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ کوئی منضبط اور کوئی واضح اعداد و شمار نہیں، سوائے اس کےکہ ٹی وی پر آجاتا ہے کہ فلاں اسکول کی عمارت کی چھت گر گئی ہے۔ بچے باہر بیٹھے ہیں، پڑھ رہے ہیں کہ نہیں یہ معلوم نہیں ہوتا۔ کہیں پتا چلتا ہے کہ اسکول کی بلڈنگ فنڈز کی کمی کے باعث ادھوری پڑی ہے۔ نئے بجٹ میں تو ہر محکمے کو کہا گیا کہ 40فیصد خود ہی کم کر دیں۔ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایسے مسائل کا سامنا ہے جن کو ہم سب کو مل کر حل کرنے کی سعی کرنی ہے۔

میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی، چھوٹے شہروں جیسے چینوٹ، شیخوپورہ، ڈی آئی خان، خضدار جیسے علاقوں میں گریجوٹ کالج تھے۔ اس طرح کے بے شمار کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دیدیا گیا ہے، یہ ایک طرف اچھا قدم ہے، دوسری جانب خطرناک۔ ان کالجوں میں پڑھانے والوں کو بی اے تک کے نصاب کے بارے میں تو حفظ ہوتاہے کہ ہر روز وہی رٹا رٹایا لیکچر سننا بچے بھی پسند کرتے ہیں اور اساتذہ بھی۔ ویسے بھی کوئی پروفیسر نصابی کتب سے ہٹ کر کچھ اور پڑھنے اور پڑھانے کیلئے کہے تو خود طلبا احتجاج کرتےہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہمیں آپ صرف کورس کی کتاب پڑھائیں‘‘ میں جس گریجویٹ کالج کے باہر یونیورسٹی کا بورڈ لگا دیکھتی ہوں۔ بچوں کی پڑھائی اور مستقبل کے بارے میں فکر مند ہو جاتی ہوں۔

فکر مند میں ہی کیا شیخ رشید بھی ہیں کہ 1860ءمیں انگریزوں نے ریلوے ٹریک جو بنائے تھے، وہ اپنی عمر ختم کر چکےہیں۔ گویا 72برسوں میں ڈبل ٹریک کرنا تو درکنار، موجودہ کی بھی مرمت اور اپ ڈیٹ نہیں کر سکے۔ ایوب کے زمانےمیں خانیوال تک بجلی کی ٹرین چلتی تھی۔ اب کیا ہے، بس اتنا معلوم ہے کہ کوئی ٹرین پٹری سے اتر جاتی ہے، اتنے بندے مر جاتےہیں یا پھر فلاں فلاں ٹرین کم ازکم 6گھنٹے تاخیر سے پہنچے گی۔ کئی جگہ پر ڈبل ٹریک ہوا تھا، وہ بھی خواب و خیال ہو گیا۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا جب میئر کراچی یہ کہتےہیں کہ کراچی میں ڈرینج سسٹم انگریزوں کے زمانےکا ہے۔ جو اپنی عمر پوری کر چکا ہے۔ توہم 72سال سے کر کیا رہےہیں۔

اب سادگی اور بچت کی ضمن میں کہہ دیا گیا ہے کہ دفتروں میں کاغذ کے دونوں طرف لکھا جائے۔ میں نے جب پچاس برس پہلے لکھنا شروع کیا تھا مجھ سے ایک بڑےاخبار کے مالک نے کہا تھا چھپے ہوئےکاغذ کی دوسری طرف لکھنے کے لئے استعمال کرو۔ انہوں نے اپنی دفتر میں بھی یہی اصول رکھا تھا۔

سادگی اور غریبوں کے لئے فنڈز کی فراہمی کی صرف باتیں ہیں۔ میری غریب مائی نے دو کمروں کا گھر بنانے کے لئے 5لاکھ روپے مانگے تھے۔ جواب ملا ہماری اوقات تو یہ ہے کہ ہم کھوکھا بنانے کے لئے 75ہزار روپے دے سکتے ہیں ہیئر سیلون بنانے کاروبار کیاجائے۔ یہ سب لغویات ہیں، ان کے لئے پیسےنہیں ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر وہ لاکھوں غریبوں کے گھر کہاں گئے اور وہ جو لاکھوں کو نوکریاں دینی تھیں، وہ کہاں گئیں کہ مزید بھرتیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ جو پی۔ آئی۔ اے سے لے کر پی ٹی وی تک ہر حکومت دھڑلے سے بھرتیاں کرتی رہی ہے، کیا ان لوگوں کو نکال دیا گیا!

میں نے اپنے بیٹے سےکہا ذرا سفید زیرہ لے آئو۔ ہاتھ میں دو سو روپے دئیے۔ اس نے ہنس کر کہا ’’ماں‘‘ زیرے کا پیکٹ ساڑھے تین سو روپے کا ہو گیا ہے۔ سوچا چلو سفید زیرہ سبزیوں، دالوں اور کڑھی میں ڈالنا بند کر دیتے ہیں۔ ’’غصے سے بولا‘‘ کل آپ نے کہا تیل کا ایک قطرہ ڈالا کرو، آج زیرےکے لئے منع کر رہی ہیں۔ پچھلے ہفتے آپ نے کہا پوریاں مت لائوں بہت مہنگی ہو گئی ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ انسانی زندگی ہی سستی ہو گئی ہے کہ گاڑی پارکنگ کے جھگڑے میں پستول چلنے لگی ہے، تہذیب کی تلاش جاری ہے، دیکھ لیں، اب یہ ہی تہذیب ہے۔

تازہ ترین